غزہ، وہ چھوٹا سا علاقہ جو ایک قید خانے سے زیادہ کچھ نہیں، آج انسانی تاریخ کے بدترین ظلم و ستم کا گواہ بن چکا ہے۔ جہاں نہ زمین محفوظ ہے، نہ آسمان؛ نہ ماں کا آنچل سلامت ہے، نہ بچے کا کھلونا۔ اسرائیلی درندگی نے انسانیت کے سارے تقاضے روند ڈالے ہیں۔ یہ ظلم ایسا ہے جس پر اگر درخت بھی گواہی دیں، تو چیخ اٹھیں۔
فلسطین کا مسئلہ آج کا نہیں۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے جبراً بے دخل کیا گیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک فلسطینی عوام ایک مسلسل جدوجہد میں مبتلا ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، عالمی احتجاج، مظاہرے – سب کچھ بے سود رہا، کیونکہ اسرائیل کو طاقتور عالمی قوتوں کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔
غزہ کی صورتحال 2024–2025
دو ہزار تئیس کے بعد سے غزہ پر ہونے والی اسرائیلی بمباری نے ظلم کی نئی داستانیں رقم کیں۔ اقوامِ متحدہ، ریڈ کراس، اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق:
تیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 70٪ خواتین اور بچے شامل ہیں۔
ستر ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں، جن میں بیشتر عمر بھر کے لیے معذور ہو چکے ہیں۔
دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں، جن کے پاس نہ چھت ہے، نہ خوراک، نہ دوا۔
چار سو سے زائد اسکول و تعلیمی ادارے تباہ کیے جا چکے ہیں۔
اسی فیصد آبادی کو صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں
پچانوے فیصد صحت کے مراکز کام کرنا چھوڑ چکے ہیں ۔
اسرائیلی فوجی نہ صرف مسلح نوجوانوں کو نشانہ بناتے ہیں، بلکہ نہتے شہری، حاملہ عورتیں، نومولود بچے، بوڑھے افراد، حتیٰ کہ ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑیاں بھی ان کی وحشت سے محفوظ نہیں۔ ایسی درندگی شاید ہی کسی دور میں دیکھی گئی ہو۔ تصویریں اور ویڈیوز دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہیں، جن میں اسرائیلی نشانہ بازوں کو بچوں کے سروں کو ہدف بناتے دیکھا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صرف 2024 میں 7,000 سے زائد بچے شہید کیے گئے، جن میں کئی وہ بھی شامل ہیں جو اپنی ماؤں کی گود میں تھے۔ کیا دنیا میں کوئی قانون ہے جو ان معصوموں کے خون کا حساب لے؟
دنیا بھر کے "مہذب" ممالک جو یوکرین، اسرائیل، یا دیگر جگہوں پر انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، فلسطین کے معاملے پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے بیانات، صرف کاغذی کاروائی تک محدود ہیں۔ امریکہ، برطانیہ، اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کو اسلحہ، ٹیکنالوجی، اور سیاسی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
اسرائیلی ٹینک اور طیارے بم برساتے ہیں، مگر فلسطینی مائیں اپنے شہید بچوں کو دفناتے ہوئے کہتی ہیں:
“ہم نے بیٹے قربان کیے ہیں، مگر زمین نہیں چھوڑیں گے”۔
یہ وہ لوگ ہیں جو موت کو زندگی سے زیادہ جانتے ہیں، لیکن غلامی کو ہرگز قبول نہیں کرتے۔ فلسطینی مزاحمت نہ صرف ایک سیاسی تحریک ہے، بلکہ یہ ایک زندہ قوم کی شناخت ہے۔
ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سوشل میڈیا پر آواز بلند کریں – خاموشی بھی جرم ہے۔
مظلوموں کی مدد کے لیے چندہ دیں – اگر مالی استطاعت ہو۔
مقامی و عالمی اداروں کو خط لکھیں – مطالبہ کریں کہ اسرائیل کے خلاف پابندیاں لگائی جائیں۔
اپنے بچوں کو فلسطین کی تاریخ پڑھائیں – تاکہ وہ سچ اور جھوٹ کا فرق سمجھ سکیں۔
غزہ اس وقت صرف ایک علاقہ نہیں، ایک امتحان ہے – انسانیت کا امتحان۔ یہ دیکھنے کا وقت ہے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہیں یا ظالم کی خاموش حمایت میں شامل۔ اگر آج ہم نے اپنی زبانیں بند رکھیں، تو کل ہم خود بھی اسی ظلم کا شکار ہو سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے