ہوم << ضمیر کا ماتم - نوید احمد

ضمیر کا ماتم - نوید احمد

دل غمزدہ ہے، روح اضطراب سے لبریز ہے۔ وجود پر بوجھ ہے، ملامت کی چادر تنی ہوئی ہے، اور ذہن پر گناہوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ شاید یہی حال آج ہر اس مسلمان کا ہے جس کے دل میں کبھی ایمان کی حرارت موجزن تھی۔ یہ وقت ہے تحمل، بردباری اور خوداحتسابی سے سوچنے کا۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا—کیا ہم واقعی بے قصور ہیں؟ کیا ظلم کی اس تاریکی میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟

عورتوں کی عصمتیں نیلام ہو رہی ہیں، اُن کی چیخیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہیں، اور پھر اُنہیں بے دردی سے شہید کر دیا جاتا ہے۔ مردوں کو چن چن کر مارا جا رہا ہے، اور معصوم بچوں کو بارود سے اُڑا دینا ایک معمول بن چکا ہے۔ ان سب مناظر کے باوجود، ہمارا ضمیر ساکت ہے، ہماری روح بے حس، اور ہمارا ردِعمل صرف خاموشی ہے۔

ہم وہ قوم بن چکے ہیں جسے مظلوموں کی آہیں، زخمیوں کی سسکیاں، اور معصوموں کی لاشیں بھی جھنجھوڑ نہیں سکتیں۔ چیخ و پکار ہمارے کانوں تک آ چکی، آنکھوں نے سب کچھ دیکھ لیا، لیکن زبان گُنگ ہے، دل بے حس، اور ہاتھ شل۔

آج مسلم دنیا پر ایسے حکمران مسلط ہیں جنہیں نہ عقل کی روشنی نصیب ہے اور نہ ایمان کی حرارت۔ اقتدار کی ہوس میں اندھے یہ حکمران اپنے مفادات کے لیے ہر ظالم سے ہاتھ ملانے کو تیار ہیں۔ غیرت، حمیت، اور اسلامی وقار ان کے قاموس سے مٹ چکے ہیں۔

ایک وقت تھا جب محمد بن قاسم نے صرف ایک مظلوم عورت کی فریاد پر سندھ کی سرزمین پر لشکر کشی کی۔
تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے کہ جب راجہ داہر کے بحری قزاقوں نے چند عرب تجار کے جہاز لوٹے اور ان میں موجود مسلمان عورتوں اور بچوں کو قید کر لیا، تو ان میں سے ایک عورت نے خلیفہ وقت کو آواز دی: "یا حَجَّاج، اَدْرِکْنِی" اے حجاج! مجھے بچاؤ۔

یہ فریاد خلیفہ کے گورنر حجاج بن یوسف تک پہنچی، جس نے فوراً محمد بن قاسم کو حکم دیا کہ وہ سندھ کی طرف روانہ ہو کر ان مظلوموں کو آزاد کرائے۔
محمد بن قاسم نے صرف 17 سال کی عمر میں فوجی لشکر کی قیادت سنبھالی اور سندھ کو فتح کر کے اس عورت سمیت دیگر قیدیوں کو آزاد کرایا۔
یہ کوئی جذباتی یا غیر منطقی اقدام نہیں تھا، یہ غیرتِ ایمانی، عدل کی پاسداری اور امت کے درد کا مظہر تھا۔

لیکن آج؟ غزہ کی بیٹیاں ہمیں پکار رہی ہیں، ظلم و ستم کی دہائی دے رہی ہیں، مگر ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ مذمت جیسے بے جان لفظ سے آگے نہیں بڑھتے۔ ہماری غیرت صرف تقریروں اور سوشل میڈیا کے تبصروں تک محدود ہو چکی ہے۔

ہم نے سیاسی رہنماؤں کو دیوتا بنا رکھا ہے۔ ان کے سامنے سوال کرنا تو دور، اُن سے آنکھ ملانا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ کیا ہم ان سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ انہوں نے غزہ کے لیے آواز بلند کی؟ نہیں، کیونکہ ہمیں غزہ سے کیا؟ وہ تو کہیں دور ہے، اور یہی سوچ درحقیقت منافقت کی انتہا ہے۔

پاکستان، جو کبھی امتِ مسلمہ کی امید سمجھا جاتا تھا، آج بے عملی کی تصویر بن چکا ہے۔ ہماری فوجی طاقت، ہماری جغرافیائی اہمیت، اور ہمارے دفاعی وسائل—سب کچھ ہونے کے باوجود ہم غزہ کے مظلوموں کے لیے کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکے۔ یہ ہمارے غلط انتخاب، غلامانہ ذہنیت، اور سامراجی طاقتوں کی وفاداری کا نتیجہ ہے۔

غزہ کا مسئلہ صرف ایک انسانی المیہ نہیں، یہ سیاسی، دفاعی اور سماجی لحاظ سے ہماری آزمائش بھی ہے۔ اگر ہم نے اچھے اور برے میں تمیز کرنا سیکھا ہوتا، تو آج ہم کسی اور مقام پر ہوتے۔