یہ ہم کس ملک میں رہ رہے ہیں؟ یا یوں کہوں، کیا ہم واقعی کسی ملک میں رہ رہے ہیں؟ کیونکہ یہاں تو ملک جیسی کوئی چیز محسوس ہی نہیں ہوتی۔ مجھے تو اکثر یہ ملک ایک جنگل سا لگتا ہے، جہاں نا قانون ہے، نہ اخلاقی، نہ برداشت .
کل دفتر سے واپسی پر ایک واقعہ پیش آیا جو اب تک ذہن سے نہیں نکل پایا۔ وہ منظر، وہ چیخیں، وہ غصہ، سب کچھ اب بھی میرے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے۔
ایک موڑ پر ایک موٹر سائیکل اور کار کا ٹکراؤ ہوتے ہوتے بچا۔ اس پر ایک نوجوان گاڑی سے نکلا اور ادھیڑ عمر موٹر سائیکل سوار سے الجھ پڑا۔ دونوں میں تلخی اور گالم گلوچ شروع ہوگئی۔ موٹر سائیکل سوار کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں، جو ان انکل کو روکنے کے بجائے خود بھی برابر کی لڑائی کر رہی تھیں۔
میں عام طور پر ایسے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا کیونکہ ویسے ہی لوگ خاموش تماشائی بن کر ٹریفک بلاک کر دیتے ہیں۔ لیکن اس بار میں قریب تھا، تو فوراً بھاگ کر گیا اور جھگڑا ختم کرانے کی کوشش کی۔
وہ نوجوان پڑھا لکھا لگ رہا تھا۔ اس کے ساتھ گاڑی میں ایک لڑکی تھی، جس نے لیب کوٹ پہنا ہوا تھا۔ میں نے سوچا دونوں پڑھے لکھے ہیں بات سمجھیں گے۔
میں نے لڑکے کو پکڑا اور ایک طرف لے جا کر کہا:
"بھائی، آپ پڑھے لکھے ہو، جانے دو۔"
وہ بولا:
"بھائی میں نے کچھ نہیں کہا، وہ غلط آ رہے تھے اور اوپر سے گالیاں دے رہے ہیں."
حالانکہ وہ خود بھی ان کی عمر کا لحاظ کیے بغیر گالم گلوچ کر رہا تھا۔
خیر میں نے پھر نرمی سے کہا:
"بھائی، درگزر کرو اور نکل جاؤ۔ آپ کے ساتھ فی میل بھی ہیں تو اچھا نہیں لگتا."
وہ گاڑی میں بیٹھنے ہی والا تھا کہ پیچھے سے انکل نے پھر کچھ کہہ دیا، اور وہ دوبارہ غصے سے ان کی طرف لپکا۔
اس دوران لڑکی بالکل کسی بات میں نہیں پڑی، نہ ہی گھبرائی، وہ کھڑی بس دیکھ رہی تھی، لیکن اس نے کسی کو فون کیا۔
خیر، میں نے پھر اس لڑکے کو پکڑا اور سمجھا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ لیکن جیسے ہی میں مڑا، وہ پھر گاڑی سے اتر آیا۔ شاید لڑکی نے کچھ کہا ہو۔
اب وہ مجھ سے کہتا ہے:
"بھائی آپ جائیں، میں خود ڈیل کر لیتا ہوں."
میں نے کہا:
"بھائی، اللہ نے آپ کو اور آپ کی گاڑی کو بچا لیا، درگزر کرو."
لیکن وہ کہنے لگا:
"نہیں، آپ جائیں، میں یہی ہوں."
پھر میں انکل اور آنٹی کی طرف گیا اور ان سے جانے کی درخواست کی، لیکن ان کا بھی پارہ ہائی تھا۔ بہرحال، بڑی مشکل سے انھیں روانہ کیا، اور ان کے جاتے ہی نوجوان جوڑا بھی نکل گیا۔
میں نے سکھ کا سانس لیا، لیکن وہ سکون وقتی نکلا.
میں جیسے ہی تھوڑا آگے گیا تو میں نے دیکھا، ایک اور گاڑی والے نے ان موٹر سائیکل سواروں کو روکا اور گاڑی سے نکل کر ان پر چڑھ دوڑا۔ وہ عمر میں بڑا تھا اور حلیے سے اس نوجوان کا والد لگ رہا تھا۔ وہ چیخ کر کہنے لگا:
"میرے بیٹے کو تم نے گالی کیسے دی؟ ہمت کیسے ہوئی؟"
وہ شدید غصے میں تھا، گالیاں دے رہا تھا، اور ہاتھا پائی پر اُتر آیا۔ خاتون نے روکنے کی کوشش کی تو انھیں بھی جھڑک دیا۔
ابھی یہ سب ہو رہا تھا کہ ایک ہٹّا کٹّا پہلوان زور زور سے گالیاں دیتا ہوا آیا:
"کہاں ہے وہ؟ کہاں ہے وہ؟"
پہلے لگا شاید موٹرسائیکل سوار انکل کا بیٹا یا کوئی رشتہ دار آگیا، لیکن وہ بھی آ کر ان پر ہی چڑھ دوڑا۔ پھر ایک اور پہلوان بھی آ گیا، اور دونوں کہنے لگے:
"پتا ہے تم نے کس سے پنگا لیا ہے؟ ہم ان کے گن مین ہیں!، یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے وغیرہ وغیرہ"
یہ سب منظر دیکھ کر میں ششدر رہ گیا۔
بے شک ابتدا میں دونوں فریق قصوروار تھے، لیکن تین طاقتور افراد نے ان انکل آنٹی کی جو تذلیل کی، وہ ناقابلِ برداشت تھی۔
ہم سب لوگ بیچ میں پڑے اور موٹرسائیکل سواروں کو وہاں سے بھیجنے میں کامیاب ہو گئے۔
ان کے جانے کے بعد ایک پہلوان نے لڑکے کے والد کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور وہ بڑی چوہدراہٹ سے گاڑی میں بیٹھ گیا پھر میں نے ان تینوں کو ہنستے ہوئے دیکھا۔
میں وہ ہنسی نہیں بھول سکتا، جو میں نے ان "طاقتور" افراد کے چہروں پر دیکھی۔ گویا وہ اپنی درندگی پر خوش ہو رہے ہوں۔ ان کے انداز سے لگتا تھا، یہ سب ان کے لیے معمول کی بات ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا؟
ایک چھوٹی سی بات، جو صرف ایک "معاف کر دو" پر ختم ہو سکتی تھی، ایک تماشے میں بدل گئی۔ ہر طرف غصہ، جھوٹا وقار، انا کا شور۔
اگر کل ایسی ہی صورتحال کا میرے یا آپ کے کسی اپنے کو سامنا کرنا پڑے؟ تو کیا ہم خود کو محفوظ سمجھ سکتے ہیں؟ کیا ہماری بہن، بیٹی یا والدین ایسے جنونی لوگوں کا سامنا برداشت کر پائیں گے؟
دفتر سے نکلنے سے پہلے میں معروف اینکر رابعہ انعم کا جیو پر پوڈکاسٹ دیکھ رہا تھا، جس میں انہوں نے پاکستان سے دبئی منتقل ہونے کی بنیادی وجہ سیکیورٹی کو قرار دیا۔ اس وقت تو مجھے وہ بات عام سی لگی، مگر اس واقعے کے بعد ان کی بات پر جیسے یقین آ گیا ہو۔
اسی طرح حال ہی میں جیل میں عمر قید کے مجرم کا انٹرویو دیکھا، جس میں رپورٹر نے اسے کوئی نصیحت کرنے کا بولا ،تو اس نے کہا:
"اگر انسان دو منٹ کے لیے اپنے غصے پر قابو پا لے تو دنیا جہنم بننے سے بچ سکتی ہے."
آج کے مشاہدے نے اس کی بات پر مہر لگا دی۔
یہ سب کچھ ہمارے جذباتی پن، انا، اور جہالت کا نتیجہ ہے۔ میں وہاں موجود تھا، سب دیکھا، اور یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ معاملہ معمولی تھا، مگر اسے جنگ بنا دیا گیا۔
میرے کئی دوست حالیہ دنوں پاکستان چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ جب ان سے وجہ پوچھی، تو یہی کہا:
"یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا"
اور میں ہمیشہ ان سے بحث کرتا تھا، دلیل دیتا تھا، امید دلاتا تھا۔
لیکن آج... میں بھی سوچنے لگا ہوں—کہ شاید وہ ٹھیک کہتے تھے۔
یہ ملک شاید واقعی اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔
اور اگر ہم سب نے مل کر اسے قابلِ رہائش نہ بنایا،
تو ایک دن، کسی دن… انجام صرف "ہجرت" ہوگا۔
تبصرہ لکھیے