ہوم << تھیلیسمیا کی آزمائش - ادینہ سہیل

تھیلیسمیا کی آزمائش - ادینہ سہیل

سورج غروب ہونے کو تھا. دن کو الوداع کہتی شام کی آغوش میں گم ہوتی سورج کی کرنیں اس کے چہرے پر پڑتی تو غموں کی گہری چھاپ کچھ اور واضح ہونے لگتی. کئیں شامیں ایسے ہی گزرتی گئی. دن اور رات دونوں ہی پر لگا کر اڑنے لگے لیکن بالاخر دکھوں کو سہتے سہتے وہ دن بھی آگیا جب نور محمد کو اس کے صبر کا پھل سفیان کی شکل میں ملا. سفیان کی پیدائش نور محمد کے چہرے کی رونق اور دل کے قرار کا سبب بنی. نور محمد اگرچہ پیشے کے لحاظ سے کلرک تھا اور اس کی آمدنی سے بمشکل گھر کا گزر بسر ہوتا تھا مگر وہ اور اس کی بیوی ایسے رہتے جیسے ساری دنیا کی دولت انھی کے پاس ہو. ان کے اکلوتے اور جان سے زیادہ عزیز بیٹے کے قہقوں سے ان کے گھر میں رونق ہونے لگی- مگر شاید وقت کو یہ منظور نہ تھا چنانچہ چند ہی مہینوں میں سفیان بہت کمزور ہونے لگا- دونوں میاں بیوی کو لگا کہ یہ محض بڑھتی عمر کی وجہ سے آنے والی تبدیلی ہے مگر جلد ہی اس کے چہرے کے پیلے پن نے دونوں کو پریشانی میں مبتلا کر دی. وہ دونوں اسے ہسپتال لے کر بھاگے.

" آپ کے بیٹے کو تھیلیسیمیا میجر ہے" ڈاکٹر بختاور نے چیک اپ کرنے کے بعد بتایا.
"کیا ،یہ کیا ہوتا ہے ؟" نور محمد کی بیوی سلطانہ کے ہاتھ کانپنے لگے.
"تھیلیسیمیا خون کی بیماری ہے، یہ زیادہ تر بچوں کو متاثر کرتی ہے جس کی وجہ سے بچوں میں ہیموگلوبن کا لیول کم ہو جاتا ہے، ہیمو گلوبن کا لیول کم ہونے کی وجہ سے جسم کے مختلف حصوں میں آکسیجن کی فراوانی متاثر ہوتی ہے.
تھیلیسیمیا میجر جس سے آپ کا بچہ متاثر ہے، اس میں خون اتنا کم بنتا ہے کہ انہیں ہر دو سے چار ہفتے بعد خون کی بوتل لگوانے کی ضرورت پیش آتی ہے، ورنہ مستقبل میں بچے کا جینا ناممکن ہو جاتا ہے.
"کیا یہ کیسے ممکن ہے" ان دونوں پر تو جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی.

اتنی بڑی نعمت کے بعد اتنی سخت آزمائش، خدا جانے وہ بچے کو لیے کس طرح گھر پہنچا- اس بچے کی شکل دیکھتے ہوئے اس نے دل میں شدید خواہش کی کہ کاش یہ محض سپنہ ہو، مگر حقیقت سے بھاگنے سے سب بدل تھوڑی جاتا ہے بلکہ انسان سچ سے منہ موڑ کر محض خود کو دھوکہ دیتا ہے، لہذا حقیقت کو جتنی جلدی تسلیم کیا جائے اتنا بہتر ہوتا ہے.
" نور محمد کیا سوچا ہے، اب کیا کریں گے؟" سلطانہ نے نم آنکھیں لیے اپنے شوہر کی طرف دیکھا-.
" کیا مقصد ہے کہ کیا کریں گے، سیف کا علاج کروائیں گے، اپنے بیٹے کی زندگی کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، نور محمد نے اپنے آنسو پوچھ کر پرعزم لہجے میں کہا.
مگر بہت پیسہ چاہیے ہوگا.
"میں اپنی ساری جمع پونجی لٹا دوں گا اپنے بچے پر، اگر مجھے اس گھر کو بھی بیچنا پڑا تو میں ایک منٹ نہیں لگاؤں گا".نور محمد بولا

ٹھیک ایک ہفتے بعد وہ دونوں سفیان کو لیے سرکاری ہسپتال پہنچے. ڈاکٹر نے خون دستیاب کرنے کا کہا. نور محمد اپنے لخت جگر کے لیے خون دستیاب کرنے کے لیے نکلا جبکہ سیف کی ماں اس کے پاس ہی رک گئی- کچھ گھنٹوں بعد نور محمد ہاتھ میں مطلوبہ رقم اور خون کی بوتل لیے برآمد ہوا ، وہ پسینے میں شرابور تھکن سے چور ڈاکٹر کو بوتل دے کر خود کرسی پر براجمان ہو گیا. "پیسوں کا بندوبست کیسے کیا؟"نور محمد کی بیگم نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا.
"کچھ اپنی جمع پونجی تھی باقی تھوڑا قرض لیا ہے دوست سے" وہ انکھیں بند کیے بے بسی سے بولا.

وقت گزرتا گیا نور محمد اب دن میں کلرک کے ساتھ رات کو چوکیداری بھی کرنے لگا، مگر پھر بھی ہر مہینے خون چڑھوانے سے خرچہ بہت بڑھنے لگا تھا اور نوبت فاقوں تک آگئی تھی. آفس کا بھی قرضہ چڑھ چکا تھا -سفیان کی عمر اب دس سال ہو گئی تھی.نور محمد کی ایک امیر رشتہ دار تھے نور محمد نے ان سے مدد مانگنے کا سوچا. وہ ان کے گھر گیا مگر اس کے رشتہ داروں نے سختی کا مظاہرہ کر کے اسے دھتکار دیا. وہ بے بس گھر لوٹا. اس نے بہت سے لوگوں سے مدد طلب کی مگر سب نے انکار کر دیا اور آخر وہ کب تک دوسروں سے مدد مانگتا؟ سفیان کی طبیعت مزید بگڑنے لگی. اور اب اسے مہینے میں دو بوتلوں کی ضرورت پڑتی. فاقوں کی وجہ سے اس کی بیوی بھی بہت کمزور ہو گئی تھی. پیسے نہ ہونے کے باعث سفیان کو ایک مہینے خون کی بوتل نہیں چڑھی اور وہ بچہ تھوڑے ہی دن یہ اذیت برداشت کر سکا اور پھر دنیائے فانی سے کوچ کر گیا-

نور محمد تو جیسے زندہ زمین میں دھنس گیا، جبکہ اس کی بیوی نے چپ سادھ لی. بہت جلد نور محمد یہ بات سمجھ گیا کہ وہ اللہ کی چیز تھا اور اس نے واپس لے لی. مگر کیا یہ شرمندگی کا مقام نہیں ان لوگوں کے لیے جو اپنے مال سے رشتہ داروں کی مدد نہیں کرتے اور ان کے کام نہیں آتے؟ وہی رشتہ دار جو اگر نور محمد کی مدد کر دیتے تو اس کے حالات سنور جاتے کیونکہ آزمائش تو کسی پر بھی آسکتی ہے. کسی پر تھلیسیمیا کی صورت میں تو کسی پر کسی اور صورت میں...

Comments

Click here to post a comment