پاکستان سیاحوں کیلئے آئیڈیل ملک ہے۔ جہاں گرمیوں میں اس کے شمالی علاقوں کے پہاڑ اور وادیاں جنت کا منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں، وہاں سردیوں میں اس کے جنوبی علاقے اپنے سرسبز میدانوں، وسیع صحراؤں اور سنہرے ساحلوں کی وجہ سے سیاحت کیلئے بہترین ہوتے ہیں۔ یعنی یہاں ہم سارا سال کئی بار سیاحت کیلئے کہیں نہ کہیں جا سکتے ہیں۔
پاکستان کے شمال میں مری و گلیات، کشمیر، کاغان، سوات اور چترال کا اپنا ایک حسن ہے اور گلگت، اسکردو و ہنزہ میں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں کوہِ ہمالیہ، کوہِ قراقرم اور کوہِ ہندو کش کا اپنا جلال و جمال ہے۔ ان میں سے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں سیاح بہت جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جہاں نسبتاً کم جاتے ہیں۔ مثلاً گلگت، اسکردو اور چترال میں سیاحوں کی اتنی ریل پیل نہیں ہوتی جتنی مری نتھیا گلی اور ناران کاغان میں ہوتی ہے۔
جن علاقوں میں سیاح زیادہ جاتے ہیں وہاں یہ تکلیف دہ بات سامنے آتی ہے کہ رش کے دنوں میں سیاحوں کو وہاں کے مقامی لوگوں، دوکانداروں اور ہوٹل کے عملے وغیرہ کی جانب سے لالچ اور بے حسی کے رویوں کا سامنا ہوتا ہے۔ وہاں سیاح کو صرف کمائی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور ان کو پریشان کر کے لوٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ وہاں ضرورت کی اشیاء مہنگے داموں ملتی ہیں اور دوکاندار سیاحوں کو مہمان سمجھنے کی بجائے صرف گاہک سمجھتے ہوئے ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسی طرح جب ہم موٹر وے پر سفر کرتے ہیں تو قیام و طعام ایریا کے دوکاندار 50 روپے والے چپس بسکٹ وغیرہ کے پیکٹ کو مزے سے 120 کا بول دیتے ہیں اور جب ہم ان سے کہتے ہیں کہ یار یہ اتنے کا تو نہیں، تو ان کی شکل یک دم منحوس ہو جاتی ہے۔ وہ گھور کے دیکھتے ہیں کہ یہ ہم نے کیسی عجیب بات کر دی۔ کئی بار جھگڑا ہوا ہے۔ وہ عام چیزوں کی بھی ڈبل سے زیادہ قیمت طلب کرتے ہیں۔ دوکان میں داخل ہونے سے پہلے تو وہ انتہائی خوشامدانہ لہجے میں ”آئیے سر آئیے“ کہہ رہے ہوتے ہیں، لیکن جیسے ہی ہم ان سے قیمت پر بات کرتے ہیں ان کی شکل پر پھٹکار برسنے لگتی ہے۔
اس بات پر تحقیق کی جا سکتی ہے کہ کس علاقے کے لوگ مہمان نواز ہوتے ہیں اور کس علاقے کے صرف کاروباری۔ مری و کاغان کے حوالے سے تو جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ کسی حد تک ٹھیک لگتی ہیں، البتہ وادی سوات میں صورتحال مختلف ہے۔ میں جب بھی وہاں گیا مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہاں کے دوکاندار اور ہوٹلوں والے مجھے صرف گاہک کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً آپ وہاں کسی ہوٹل میں جاتے ہیں اور ان سے کمرے کا کرایہ پوچھتے ہیں، پھر اسے کم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب وہ ایک خاص حد سے مزید کم نہ کریں تو آپ صرف ایک جملہ بول کر دیکھیں … ”یار ہم تو آپ کے مہمان ہیں“ … بس جیسے ہی آپ مہمان کا لفظ منہ سے نکالیں گے، یکا یک ان کے چہرے نرم پڑ جائیں گے اور پھر وہ کوشش کریں گے کہ آپ کو کچھ اور رعایت دے دیں۔
چند سال پہلے کی بات ہے، میں اپنی فیملی کے ساتھ بحرین سوات گیا۔ وہاں ہمیں ایک ایسا کمرہ چاہیے تھا جس میں پانچ بیڈ ہوں۔ اکتوبر کا مہینہ تھا، سردیوں کی ابتداء تھی اس لئے سیاح نہ ہونے کے برابر تھے۔ ایک ہوٹل والے نے ہمیں پانچ بیڈ کا کمرہ دکھایا، جس میں گرم پانی بھی دستیاب تھا۔ ہمیں کمرہ پسند آیا۔ میں نے کرایہ پوچھا تو اس نے کہا ”ایک ہزار روپے“ … میں بڑا حیران ہوا کہ ایک ہزار تو بڑا معمولی کرایہ تھا۔ میں نے جب حیرت سے کہا : ”ایک ہزار روپے؟“ تو وہ معصومیت سے بولا :
”صاحب اس سے کم نہیں ہو سکتا“
میں بولا : ”بھائی تم سے کم کرنے کو کون کہہ رہا ہے، میں تو حیران ہوں کہ تم بہت کم کرایہ لے رہے ہو۔“
”بس جی اس سیزن میں ہمارا یہی فکس کرایہ ہے، ہم یہی لیتے ہیں“ وہ بولا۔
اسی وادی سوات میں کالام معروف سیاحتی مقام ہے اور ہر سال بے شمار سیاح وہاں جاتے ہیں۔ ایک دفعہ میں کالام میں ہی تھا تو مجھے ٹوتھ پیسٹ کی ضرورت پڑی۔ میں ایک جنرل اسٹور میں گیا اور ان سے ٹوتھ پیسٹ طلب کیا۔ اس زمانے میں وہ ٹوتھ پیسٹ غالباً پچاس روپے کا تھا۔ اس نے مجھے جو ٹوتھ پیسٹ دیا اس پر مارکیٹ ریٹ کے حساب سے قیمت پندرہ روپے کم لکھی تھی۔ دل میں یہی خیال آیا کہ اس پر پرانی قیمت لکھی ہے اور یہ دوکاندار مجھے اس قیمت پر نہیں بلکہ نئی یا زیادہ قیمت پر دے گا۔
میں نے اس سے پوچھا کہ کتنے پیسے؟ تو بولا صاحب دیکھو اس پر کتنے پیسے لکھے ہیں۔ میں نے بتایا کہ 35 روپے لکھے ہیں۔ تو وہ بولا ٹھیک ہے آپ 35 روپے دے دیں۔ میں حیران ہوا اور ہنس کر کہا :
”واقعی 35 کا؟… آپ کو پتہ ہے اس کا ریٹ اب بڑھ چکا ہے۔“
کہنے لگا : ”ہاں مجھے پتہ ہے، یہ اب 50 روپے کا ہوگیا ہے، لیکن میرے پاس پرانا اسٹاک ہے، اس پر جو قیمت لکھی ہے میں تو وہی لوں گا۔“
میں حیران ہی ہوا کہ یہ سواتی دوکاندار ایک معروف سیاحتی مقام پر بیٹھا ہے، چاہے تو زیادہ پیسے لے سکتا ہے، لیکن اس کی بے نیازی اور اس کا اخلاق اسے ایسا کرنے سے روک رہا ہے۔
اسی طرح وادی ہنزہ کی مثال ہے۔ چند سال پہلے میں کچھ دوستوں کے ساتھ وادی ہنزہ میں پاک چین سرحد پر خنجراب پاس گیا، جو کہ پاکستان کا آخری سرا ہے۔ اسلام آباد سے خنجراب تک تقریباً تین دن کا سفر ہے۔ یہاں کی آبادی بھی بہت کم ہے۔ یہاں بھی بلند و بالا پہاڑوں کے دامن میں شاہراہ قراقرم پر جگہ جگہ مقامی لوگ ضروری اشیاء کی دوکانیں کھول کر بیٹھے ہیں۔ ان کی آمدنی کا ذریعہ ہم سیاح ہی ہوتے ہیں۔ ان کے جوس کولڈرنک چپس وغیرہ کا گاہک مقامی نہیں ہوتا بلکہ وہ سیاح ہوتا ہے جو گزر رہا ہوتا ہے۔ خنجراب سے واپس آتے ہوئے گلمت پہنچے تو پیاس لگی۔ میں نے سوچا کوئی کولڈ ڈرنک لے لیتے ہیں۔ دریائے ہنزہ کے کنارے ایک ویران سی جگہ ایک واحد دوکان نظر آئی۔ ہم نے گاڑی روکی، میں اتر کر گیا اور دوکان والے سے ڈیڑھ لٹر والی بوتل کی قیمت پوچھی۔ اس نے کہا سو روپے۔ میں حیران ہو کر بولا :
”صرف سو روپے؟… کراچی لاہور اسلام آباد میں بھی سو روپے کی اور یہاں بھی صرف سو روپے کی؟“
وہ بولا : ”جی سر اس کی یہی قیمت ہے“
” تم زیادہ پیسے نہیں لیتے؟“ میں بولا۔
”نہیں سر جی … یہ تو مہمانوں کو تنگ کرنے والی بات ہے … ہم زیادہ نہیں لیتے“
پھر وہ بولا آئیں سربیٹھیں چائے پیئیں۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سو روپے کی بوتل خرید لی۔
یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ لوگ ہم دور دراز کے سیاحوں سے بھی ایسے پیش آتے ہیں جیسے ہم ان کے اپنے علاقے کے گاہک ہیں۔ اس لئے یہاں جو بھی آتا ہے ایک اچھا تاثر لے کر جاتا ہے۔ چنانچہ پھر مزید لوگ یہاں آتے ہیں اور علاقہ خوشحال ہوتا ہے۔
سیاحتی مقامات پر رہنے والے مقامی لوگوں سے گذارش ہے کہ وہ اس رویے کو اگر دل سے نہیں تو صرف بزنس پالیسی سمجھ کر ہی اپنائیں، تو انشاءاللہ سیاحت بھی بڑھے گی اور خوشحالی بھی آئے گی۔ آپ سیاحوں کو اپنا بھائی سمجھیں گے تو مزید سیاح آئیں گے۔ جتنے زیادہ لوگ آئیں گے اتنا ہی آپ کا علاقہ ترقی کرے گا۔
میں نے جن دو وادیوں، سوات اور ہنزہ کا ذکر کیا ہے، یہاں کے لوگ خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں۔ یہ بات بھی لازم نہیں کہ باقی جگہوں پر سب لوگ بد اخلاق ہوتے ہوں، بس ایک اوسط تجزیہ ہے۔ مری، کاغان، کشمیر اور چترال وغیرہ میں بھی آپ کو بڑے مہمان نواز لوگ مل جاتے ہیں، جو آپ کے دل پر ایسا عمدہ نقش چھوڑتے ہیں کہ ان سے ایک لازوال دوستی کا تعلق بھی بن جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے