2011 کا سال تھا. جامعۃ الرشید میں صحافت کی درس گاہ میں پروفیسر خالد جامعی صاحب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا. ان کے سپرد کوئی بندھا بندھایا مضمون نہیں تھا. ہفتے میں ایک دن تشریف آوری ہوتی ، کسی خاص موضوع کو زیرِ گفتگو لاتے ، ہم سے سوالات پوچھتے اور پھر خود اس کے مختلف پہلوؤں پہ مختلف زاویوں سے گفتگو فرماتے. پروفیسر صاحب چونکہ فلسفے کے استاذ ہیں. باغ و بہار شخصیت کے مالک ہیں. مباحثے اور مکالمے کا لطف لیتے اور دیتے ہیں. چنانچہ یہ محفل بڑی پُرکیف رہتی.
ایک دن طلباء کی صف میں ایک اور نوجوان کا اضافہ ہوا. خوب صورت داڑھی. سر پہ سرخ ٹوپی. گفتگو میں حصہ لیتے تو اچھی گفتگو کرتے. پتہ چلا کہ یہ صاحب حسن الیاس نامی طالب علم ہیں. استاذِ محترم مفتی ابولبابہ شاہ منصور صاحب نے انہیں بطورِ خاص جامعی صاحب کے درس میں بھیجا ہے. تاکہ وہ ڈاکٹر صاحب کو سنیں. حضرتِ غامدی صاحب پہ ہونے والی تنقید دیکھیں ، سمجھیں اور پرکھیں. یوں شاید انہیں اپنے نظریات اور غامدی صاحب سے فکری وابستگی پہ نظرِ ثانی کرنے میں آسانی ہو.
ایک دن اچانک گفتگو کا رخ افغان جہاد کی جانب مڑ گیا. حسن الیاس صاحب نے شدتِ جذبات سے سرخ ہوتے ہوئے قریب قریب اسی لٹھ نما انداز میں افغان مزاحمت کاروں پہ تنقید کرنی شروع کردی، جس انداز میں وہ آج اپنا پند نامہ لیے حما.س کے رو برو بیٹھے ہیں. مجھ سے رہا نہ گیا. سو ہمارے بیچ براہِ راست دو چار جملوں کا تبادلہ ہوا. جامعی صاحب نے مداخلت کی اور زمامِ گفتگو اپنے ہاتھ میں لے لی. یہ میرا حسن الیاس صاحب کی سوچ اور فکر سے پہلا تعارف تھا.
اب جب وقتاً فوقتاً انہیں فقہاء، متکلمین اور عالمِ اسلام کی مزاحمتی قوتوں کے مقابلے میں ان کی تند و تیز گفتگو سنتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس طبقے کے وابستگان کی فکری اٹھان ہی کچھ اس طور سے اٹھائی جاتی ہے کہ وہ عالمِ اسلام سے ابھرتی ہر مدافعتی آواز اور اپنے حق کے لیے برپا ہونے والی ہر جد و جہد کو مبنی بر باطل خیال کرتے ہوئے اسے یک قلم سکون و سکوتِ عالم کے لیے نقصان دہ قرار دے دیتے ہیں. وہ الگ بات کہ جابر، غاصب اور ظالم کے لیے ان کے لب ہمیشہ مقفل رہیں گے. اندازہ کیجئے کہ دفاع کا وہ حق جو شریعتِ اسلامی کو تو رکھیے ایک طرف ، غیر مسلم طاقتوں کی بنائی ہوئی اقوامِ متحدہ کا چارٹر بھی ان ممالک اور ان غیر ریاستی گروہوں کو دیتا ہے جو غیر قانونی قبضے یا نسل کشی کا شکار ہوں یا انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا جارہا ہو، مگر یہ گروہِ دانشمنداں دانش مندی میں اس قدر ایڈوانس ہے اور امنِ عالم کے لیے اس قدر حساس ہے کہ وہ یہ حق کسی مسلم ملک یا مزاحمتی گروہ کو دینے کو نہ صرف تیار نہیں، بلکہ اس کی گوشمالی کو اپنا فرضِ منصبی تصور کرتا ہے.
چلیے مان لیا کہ حماس نے غلط قدم اٹھایا، سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیلی حملوں میں صرف حما.س کے سرفروشوں کی لاشیں گر رہی تھیں یا عوام بھی کٹ مر رہے تھے؟ آپ جہاں قیام پذیر ہیں وہاں کے غیر مسلموں کے دل بھی پسیجے اور وہ اس نسل کشی کے خلاف آئے روز مظاہرے کرتے رہے، آپ حما.س کے لیے نہ نکلتے، کیا آپ میں ان غیر مسلموں جتنا پاسِ انسانیت بھی نہ تھا کہ فلسطینی عوام کے حق میں ہی آواز بلند کرتے؟
آپ کی گردن کی رگیں صرف اپنے حق کے لیے جد و جہد کرنے والے لوگوں پہ برستے ہوئے ہی کیوں پھول جاتی ہیں؟ کیا محض اس لئے کہ عالمی بدمعاشوں کے بیانیے سے اپنا بیانیہ میل کھا رہا ہوتا ہے، سو ایسا کرنے میں خوفِ خمیازہ دامن گیر نہیں ہوتا؟ محض عالمی بدمعاشوں سے بیانیاتی مصاحبت کے بل بوتے پر یہ اعتماد؟ یہ لہجے کی تندی؟ یہ غضبناکی؟ ہوا ہے شاہ کا مصاحب، پھرے ہے اتراتا.
یہ پہلو بھی خوب ہے کہ آپ کا اصلاحی بیانیہ بھی موم کی ناک ہے. چنانچہ جب اسے عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ناک کی سیدھ میں اٹھانا ہو تو تب افغان جہاد جیسے کارنامے پہ جنرل ضیاء الحق مرحوم غامدی صاحب کے دربارِ دُربار سے " امت مسلمہ کے ترکش کا پہلا تیر " کا خطاب پاتے ہیں. غامدی صاحب ایک تحریر میں جنرل صاحب کی مدح کرتے ہوئے اپنی زبان گنگ پاتے ہیں، چنانچہ جنابِ شبلی سے
اس کے اخلاق کھٹک جاتے ہیں دل میں ہر بار
وہ شکر ریز تبسم، وہ متانت، وہ وقار
وہ وفا کیشیء احباب، وہ مردانہ شعار
وہ دل آویزیء خو، وہ نگہء الفت بار
صحبتِ رنج بھی اک لطف سے کٹ جاتی تھی
اس کی ابرو پہ شکن آکے پلٹ جاتی تھی
مزید فرماتے ہیں :
" یہ قوم ان کی ہر بات فراموش کرسکتی ہے، لیکن جہادِ افغانستان کے معاملے میں وہ جس طرح اپنے موقف پر جمے رہے اور جس پامردی اور استقامت کے ساتھ انہوں نے فرزندانِ لینن کے مقابلے میں حق کا عَلم بلند کیے رکھا، اسے اب زمانے کی گردشیں صبحِ نشور تک ہمارے حافظے سے محو نہ کرسکیں گی ".
جہاد ، مجاہدین اور جنرل ضیاء الحق مرحوم کے باب میں وارفتگی کا ایک وہ عالم تھا اور ایک یہ عالم ہے کہ فلسطین کے عام فرد کے ذبح ہونے پر بھی جبین شکن آلود نہیں ہو رہی.
وجہ یہ ہے کہ اب عالمی بدمعاشوں کے بیانیے کے تقاضے بدل چکے ہیں. اب چونکہ فلسطینیوں کو مجرم جبکہ اسرائیل کو عظیم، ناقابلِ تسخیر اور عالمی قوت کے طور پر متعارف کروانے کی مہم درپیش ہے، چنانچہ حسن الیاس صاحب پوری تن دہی سے میدانِ عمل سنبھال چکے ہیں. بیانیہ موم کی ناک ہے اور یہ ناک براستہ واشنگٹن، تل ابیب کی سمت میں مڑ چکی ہے. اب ان کے لہجے کی گھن گرج، ہونٹوں کی کپ کپاہٹ، پُتلیوں کا چڑھاؤ، آنکھوں کے سرخ ڈورے، ڈوروں میں تیرتا غصہ، غصے میں لپکتے شعلے اور شعلوں میں موجود تمازت سبھی کچھ بحقِ ہر دو عالمی دہشت گرد ممالک محفوظ ہے.
تبصرہ لکھیے