ہوم << اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیسے کریں؟ جویریہ سعید

اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیسے کریں؟ جویریہ سعید

بائیکاٹ کی اس عالمگیر مہم کو شروع ہوئے بیس سال ہوچکے۔ اگرچہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ غاصبانہ قبضے کے وقت ہی شروع ہوگئی تھی۔

ایک این جی او نے 2001ء میں اس کی بنیاد ڈالی، البتہ 2005ءمیں 170 فلسطینی تنظیموں ، خواتین کی تنظیموں، ریفیوجی نیٹ ورکس اور پروفیشنل تنظیموں نے اس تحریک کا اعلان کیا، جو تیزی سے مغرب اور مشرق میں پھیل گئی۔ آج یہ ایک عالمگیر زندہ تحریک ہے، اور اس کے سپورٹرز میں صرف مسلمان نہیں بلکہ کئی چرچ گروپس، قانون کے پرفیسررز، صحافی، ادیب، اکنامسٹس، اداکار، شاعر، یہاں تک کہ یہودی بھی شامل ہیں۔ یہ تحریک ان روشن ضمیروں کی کردار کی بلندی کی علامت بن گئی، جو کرنے کے کسی کام سے اس بزدلانہ اور ہلکی دلیل سے نہیں رکتے کہ اس کا ساتھ دینے والے کم ہیں یا دشمن بہت طاقتور ہے۔

اس کا امپیکٹ دیکھنے کے لیے آپ اس کی آفیشل ویب سائٹ کا جائزہ لے سکتے ہیں
https://www.bdsmovement.net/Indicators-BDS-Global-Impact-July-December-2024

مختصرا یہ کہ خود اسرائیل ایکسپورٹ کے چیئرمین نے یہ کہا کہ اس تحریک نے اسرائیل کا گلوبل ٹریڈ منظرنامہ متاثر کردیا ہے۔ 2023ء میں اسرائیلی انوسٹیمنٹ 90 فیصد تک گر گئیں ۔ دنیا کے تمام بڑے اخبارات ویب سائٹس پر آپ یہ اعداد و شمار اور حقائق دیکھ سکتے ہیں۔ اس تحریک کو صرف اس وقت یاد رکھنا ضروری نہیں جب فلسطین پر حملوں میں شدت کی خبریں آتی ہیں، بلکہ اپنا مستقل طرز عمل بنانا ہوگا۔

میرے اور میری بہنوں کے گھر میں کوکا کولا ، پیپسی، میک ڈونلڈ اور کے ایف سی کا بائیکاٹ الحمدللہ ابتداسے ہی جاری ہے۔ البتہ گذشتہ کچھ برسوں میں یہ تبدیلی آئی کہ باقی بھی ہر شے پر چیک رہنے لگا۔ بچے بھی چیک کرتے ہیں کہ جو چیز لینی ہے وہ بائیکاٹ لسٹ میں تو نہیں۔
ہماری آئسکریم، پسندیدہ سارے چاکلیٹس چاہے اپنے لیے ہوں یا خوشی کے موقع پر تحفتا دینے کو، سب بند ہوگئیں۔ سارے پسندیدہ اسنیکس چھوٹے بچوں تک نے بند کردیے۔ ہماری کافی، شیمپو، صابن، بسکٹ، ڈٹرجنٹ، سب بدل گئے۔

کینیڈا میں رہ کر ٹم ہارٹنزیا سٹار بکس کا بائیکاٹ مشکل کام تھا کیونکہ یہ وہاں پاکستان کی طرح کسی کلاس کی علامت نہیں بلکہ قومی مشروب کافی شاپ ہے۔ خصوصا ورک کلچر میں کافی اور مشروبات کے بغیر زندگی کا تصور نہیں۔ ہم دن میں تین مرتبہ کی چائے کافی یہیں سے پیتے ہیں، گھر تو شام کو پہنچتے ہیں۔ آفسز میں رکھی کافی بھی نیسلے کی ہوتی ہیں۔ مگر بائیکاٹ کرنا تھا تو کردیا۔ میرے شوہر رمضان میں کینیڈا سے آسٹریلیا دو دن کی طویل کنکٹنگ فلائٹ سے پہنچے۔ کئی گھنٹوں کا اسٹے تھا۔ طبیعت خراب اور سردرد تھا۔ کافی نہیں پی کہ صرف سٹار بکس میسر تھا۔

آسٹریلیا اور کینیڈا میں اسلامی تنظیموں کی کسی گیدرنگ میں پیپسی کوک نہیں پیش کی جاتی۔ گذشتہ رمضان مساجد میں نماز کارڈ مکمل کرنے والے بچوں کو ڈونٹس تقسیم کرنے تھے۔ سب نے سوچا اچھی کوالٹی ضروری ہے۔ کرسپی کریم کے لیے جائیں۔ الحمدللہ کچھ آوازیں کھڑی ہوئیں کہ اگر ہم نے کیا تو گویا اپنے ہی سچ کو جھٹلایا ۔ الحمدللہ نہیں تقسیم ہوا۔ ٹم ہورٹنزکے ڈونٹس کینیڈا کا قومی کھانا بن چکے ہیں۔ چھوڑ دیے تو چھوڑ دیے۔

گروسریریز میں سستی چیز آجاتی ہے الحمدللہ بائیکاٹ لسٹ سے کچھ نہیں آتا۔پٹرول ختم ہو رہا ہو، شیل سے نہیں بھرواتے۔ مجھے زارا ز اور H&M مناسب قیمت پر سستے مگر اچھے برانڈ لگتے تھے۔ ان کی دکانوں میں داخل ہونا چھوڑ دیا۔الحمدللہ زندگی ان مصنوعات کے بغیر بھی بہت اچھی ہے۔ ہاتھ میں میکاز کا کپ نہیں دبا ہوگا تو عزت نہیں گھٹ جائے گی۔

ہمیں پتہ ہے کہ غزہ کے مسلمانوں کو ہماری فولادی مدد کی ضرورت ہے۔ لیکن صرف اس لیے کہ میرے گھرانے کو یہ مدد فراہم کرنے کا موقع نہیں ملا، جو ہم کرسکتے ہیں وہ بھی کیوں چھوڑیں؟ تبدیلی او ر فتح ویسے بھی ہماری محنت سے نہیں آتی۔ ا للّہ لاتا ہے جب اس نے وقت مقرر کیا ہو۔ ہمارا کام ہے جہاں کھڑا کیا گیا ہے وہاں کھڑے اپنا کام کرتے رہیں۔

غزوہ بدر میں ا للّہ نے کہا:تم نے نہیں پھینکا جب تم نے پھینکا۔ مگر اللہ نے پھینکا۔ ا للّٰہ نے قرآن میں بار بار قوم فرعون، عاد و ثمود کے حوالے دے دے کرپوچھا ہے کہ تم سمجھتے ہو تم ان سے زیادہ طاقتور ہو کہ ا للّہ تمہیں شکست نہیں دے سکتا؟

تاریخ کی کہانی میں درست سمت میں کھڑے رہنابھی ا للّہ کی توفیق ہے۔ کسی چھوٹی سی چھوٹی کوشش کو کم تر نہ جانیے۔ جذبے سلامت رہیں۔ ایمان سلامت رہے۔
اللہ اکبر۔ اللہ اکبر ۔ وھو علی کل شئی قدیر