ہوم << کون معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں؟ - پروفیسر نگار سجاد ظہیر

کون معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں؟ - پروفیسر نگار سجاد ظہیر

1. 2016 میں ترکیہ کے صدر ایردوان کے خلاف جو ناکام فوجی بغاوت ہوئی، اس کے پیچھے فتح اللہ گولن کے حامی فوجیوں کے علاوہ کس نے سہولت کاری کی؟؟؟
2. ترکیہ میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والے حالیہ مظاہروں کے پیچھے کون ہو سکتا ہے؟؟؟
3.سوڈان میں حال ہی میں سوڈانی فوج نے خرطوم اور صدارتی محل کو باغیوں سے چھڑا کر ان پر دوبارہ قبضہ کیا۔ ان باغیوں کے پیچھے کون ہے؟؟؟؟
4.غزہ میں گزشتہ دنوں حماس کے خلاف جو مظاہرہ ہوا، اس کے پیچھے کون ہے؟

ان چار سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے "متحدہ عرب امارات " یعنی UAE.

ترکیہ،لیبیا،سوڈان اور اب غزہ ہر جگہ ایک ہی فیکٹر کام کر رہا ہے جسے ہم" ترکی-یو اے ای رقابت" کہہ سکتے ہیں۔ ترکی اور یو اے ای کے رقیبانہ تعلقات کس طرح مشرق وسطی کو متاثر کر رہے ہیں۔اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
ترکیہ اور متحدہ عرب امارات کا آبادی، رقبے،اور فوجی قوت کے حوالے سے کوئی جوڑ نہیں، تاہم دونوں ممالک دس بارہ سال سے آپس کے تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں۔خصوصا 2011ء سے یہ دونوں ممالک خطے کے ہر تنازعے میں ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے نظر آتے ہیں۔کئی مبصرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خطے میں اثرورسوخ بڑھانے کی جنگ ہے ۔

ترکیہ اسلامی تحریکوں کے ساتھ کھڑا ہے تو UAE اسرائیل، امریکہ اور مغربی دنیا کے ساتھ اپنی لبرل پالیسیز کے ساتھ کھڑا ہے۔ دونوں میں ٹکراو فطری ہے ۔ 2011ء میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب بیداری کی لہر(Arab spring ) جب مصر پہنچی تو حسنی مبارک کے طویل دور حکومت کا خاتمہ ہو گیا، ملک میں انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں محمد مرسی کی حکومت برسراقتدار آئی۔محمد مرسی کا تعلق اخوان المسلمون سے تھا۔ترکی نے اس حکومت کا خیر مقدم کیا، ایردوان نے اپنی کابینہ کے چند اراکین کے ساتھ مصر کا دورہ کیا جہاں ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔

یو اے ای اور سعودی عرب، عرب بیداری کی اس لہر سے تشویش میں مبتلا تھے ، لہذا جب مصر کے جنرل سیسی نے، امریکہ کے اشارے پر، فوجی بغاوت کے ذریعے محمد مرسی کی حکومت کا خاتمہ کیا تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں نے اطمینان کا اظہار کیا، بلکہ اس بغاوت کے لئے یو اے ای نے جنرل سیسی کو بھاری مالی امداد بھی فراہم کی تھی۔ جبکہ ترکی نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔جب سیسی کے ظلم و ستم سے بچنے کے لئے مرسی حکومت کے حامی نوجوان ملک سے فرار ہوئے تو انہیں قطر اور ترکیہ میں پناہ ملی۔ 2016 میں متحدہ عرب امارات کے حکمران نے صدر ایردوان کو علاقائی اثرورسوخ کی جنگ میں ایک اہم حریف قرار دیتے ہوئے انہیں ایک خطرناک شخصیت قرار دیا۔

2016 میں ترکیہ میں ایک ناکام فوجی بغاوت ہوئی جسے ترک عوام نے کچل دیا ۔یہ بغاوت، ایردوان کے ایک حریف، فتح اللہ گولن۔۔۔۔۔جو کئی برس سے امریکہ میں مقیم تھے، کے حامی فوجی دستوں نے کی، جس میں کسی کو کوئی شک نہیں تھا، اس وقت ایردوان، دارالحکومت سے باہر چھٹیاں گزار رہے تھے، انہوں نے عوام سے باہر نکلنے کی اپیل کی جس پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور باغی فوجیوں کے ٹینکوں کو روکنے لگے اور جگہ جگہ نہتے ترک شہریوں کا مسلح باغی فوجیوں سے مقابلہ ہونے لگا، دو دن کے اندر اندر بغاوت کچل دی گئی۔

اس کے دو ہفتے بعد ہی ترک خفیہ ایجنسی کے سینئر حکام نے دعوٰی کیا کہ بغاوت کی منصوبہ بندی کے پیچھے اماراتی حکومت کا بھی ہاتھ ہے۔اماراتی حکومت نے فلسطینی تنظیم، "فتح " کے جلا وطن رہنما محمد دحلان کو ترکی کے جلا وطن مذہبی لیڈر فتح اللہ گولن سے رابطوں کے لئے استعمال کیا، اور اس بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔اس طرح کی رپورٹ ذرائع ابلاغ میں بھی سامنے آئیں۔2017ء میں ترکی وزیر خارجہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات نے گولن تحریک کو تین ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی تاکہ وہ ترکی میں افراتفری پھیلا سکے۔

حوالے کے لئے دیکھئے Asli Aydintasbas, "Usefull enemies: How the Turkey-UAE rivalry is remaking the middle east "
(ecfr.eu, March 15,2021)

2017ء میں چار ممالک نے قطر سے معاشی مقاطعہ کر لیا، یہ مصر۔۔۔سعودی عرب۔۔۔۔متحدہ عرب امارات اور بحرین تھے۔قطر کو صرف معاشی طور پر ہی دھکا نہیں پہنچا بلکہ اس چھوٹے سے ملک کو اپنی سلامتی بھی خطرے میں نظرآئی ۔ایسے میں ترکیہ نے قطر کی مدد کی، جہازوں میں اشیائے ضروریہ کے علاوہ 5000 فوجی بھی قطر پہنچ گئے۔اس سے "چار یار " مزید تشویش میں مبتلا ہو گئے ۔یہ ترکیہ+قطر اتحاد کو ایک خطرے کے طور پر دیکھ رہے تھے۔

امارات کو یہ خطرہ تھا کہ انقرہ اور دوحہ مل کر اپنے آپ کو خطے میں موجود اسلامی تحریکوں کے نیٹ ورک میں مرکزی پوزیشن دلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور اس سارے عمل سے امارات کی مرکزی حیثیت ختم ہو جائے گی۔ اگلے ہی برس سوڈان میں امارات ایک فوجی انقلاب کے ذریعے عمر البشیر کو ہٹانے میں کامیاب ہو گیا جو فلسطین کاز کے حوالے سے ترکیہ اور قطر کا حمائتی تھا۔ اور اسرائیل کا مخالف تھا۔اس طرح سوڈان میں Rapid Support force کے ذریعے امارات نے اپنے قدم جما لئے۔ لیکن ملک خانہ جنگی کی طرف چلا گیا، اس عرصے میں کتنے شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔۔۔۔

کتنی املاک کو جلایا گیا یہ تو ایک الگ داستان ہے۔البتہ سوڈان کی سرکاری فوج مسلسل باغیوں کے خلاف متحرک رہی اور ابھی پچھلے ہفتے کی خبر ہے کہ سرکاری فوج نے خرطوم پر دوبارا قبضہ کر لیا ہے۔ خرطوم ائرپورٹ اور صدارتی محل، سب کچھ ان کے قبضے میں ا چکا ہے۔صدارتی محل جو RSF کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال ہو رہا تھا وہاں سے کچھ دستاویزات ملی ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ RSF کے پیچھے امارات ہے۔ یہ دستاویزات سرکاری فوج کے ذمہ داروں نے میڈیا پر مشتہر کر دی ہیں۔اس بارے میں ابھی تفصیلات آ رہی ہیں۔

2018 کے بعد سے امارات نے ایتھوپیا، اریٹیریا اور صومالیہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری لانے کے لئے جو مالی وسائل فراہم کئے اور ان ملکوں میں جو سرمایہ کاری کی اس کی واحد وجہ اس ترکی کے اثرورسوخ کو کم یا ختم کرنا ہے جو حماس، اخوان المسلمون اور دیگر اسلامی تحریکوں کا حمائتی ہے۔یاد رہے امارات اور سعودی عرب نے 2006 میں ہی۔۔۔۔۔جب حماس غزہ میں برسراقتدار آئی تھی۔۔۔۔۔اخوان المسلمون کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا خصوصا اخوان کو دنیا بھر کے سامنے خطرہ بنا کر پیش کیا۔اسی تناظر میں "اخوان " کو امارات نے داعش اور القاعدہ جیسی تنظیموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

اس کے مقابلے میں یو اے ای اپنے آپ کو ایک سوفٹ لبرل امیج دے کر یورپ اور امریکہ کے نزدیک۔۔۔۔باوجود خاندانی بادشاہت کے۔۔۔۔زیادہ سے زیادہ قابل قبول بنانے کی پالیسی پر گامزن ہے۔اماراتی حکومت نے اپنے آپ کو آزاد خیال،جدید اورلبرل ثابت کرنے کے لئے گرجا گھر اور مندروں کی تعمیر کی اجازت دی۔سیاسی و جغرافیائی مفادات کے لیے صرف اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ خطے(مشرق وسطی ) کو زیادہ سے زیادہ "اسرائیل دوست " بنانے کے لئے حکومتوں کے تختے الٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔

ٹرمپ نے اپنے پچھلے دور اقتدار میں "معاہدہ ابراہیمی " کا ڈول ڈالتے ہوئے متحدہ عرب امارات اور بحرین سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروائے اور سعودی عرب پر بھی اس حوالے سے دباو بڑھایا، تاہم سعودی عرب امارات اور بحرین کی طرح کوئی چھوٹا ملک نہیں ہے لہذا وہاں معاملہ اٹک گیا۔ ترکیہ میں کردوں گا معاملہ سو سال سے چل رہا ہے، ان کرد علیحدگی پسندوں سے ترکیہ کی مختلف حکومتوں نے مختلف طریقوں سے نبٹا ہے۔

ایردوان حکومت نے بہرحال سختی اور نرمی دونوں کا مظاہرہ کیا ہے، کردوں کو کچھ ایسی مراعات بھی دیں جو سابقہ فوجی حکومتوں نے سلب کر لی تھیں۔ امارات نے ان باغی کردوں کو بھی، ایردوان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی اور انہیں مدد فراہم کی۔یاد رہے کرد چار ملکوں میں تقسیم ہیں، ایران، عراق،ترکی اور شام۔ ترکیہ کی جنوب مشرقی سرحد جو شام سے ملتی ہے وہاں کردوں کی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں جس میں ترکی اور شام کے کرد شامل ہوتے ہیں۔(اس کو بلوچستان کی صورتحال سے سمجھا جا سکتا ہے، جیسے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے افغانستان میں ہیں )

2020 میں کورونا وبا کے دوران اور بعد میں، انسانی بنیادوں پر مدد کی آڑ میں امارات نے سابق شامی صدر بشار الاسد سے دوبارہ تعلقات قائم کئے اور شمالی شام میں ترک اثرورسوخ کو کم کرنے کے لئے اپنے تعاون کا یقین دلایا۔ ایک موقع پر امارات سے متعلق ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا:" اگر آپ پوچھیں گے کہ کون خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر کے افراتفری پھیلا رہا ہے تو میں بغیر کسی جھجھک کے کہوں گا کہ متحدہ عرب امارات "
حوالے کے لئے دیکھئے:
Henri J.Barkey," The UAE-Israel agreement isn't only about Iran, there's also Turkey "
(cfr.org ,Sept. 21,2020)
متحدہ عرب امارات، ترکیہ کے خلاف لابنگ کا کام پچھلی ایک دہائی سے کر رہا ہے(یاد رہے امارات کے موجودہ صدر زید بن نہیان کے بیٹے محمد بن زید بن نہیان ہیں۔ زید بن نہیان کا 2004 میں انتقال ہو چکا ہے، )

لیکن گزشتہ چند برسوں سے تو باقاعدہ لابنگ فرم کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے امریکی ایوان نمائندگان سے ترک مخالف بل منظور کروائے گئے، مثلا امریکہ نے ترکی کو فضائی دفا عی نظام S-400 کی فروخت روک دی تھی اور جب ترکی نے یہ دفاعی نظام روس سے خرید لیا تو امریکہ نے کئی ملین ڈالر کی رقم جو ترکی کو دینی تھی، وہ روک لی ۔
امریکہ کے ساتھ ساتھ امارات نے یورپی یونین میں بھی ترکی کے خلاف بھرپور مہم چلائی، اس مہم کا مرکزی نکتہ اسلامی تحاریک تھیں، جن کی ترکی حمایت کر رہا ہے۔

امارات کی اس مہم کا ہی نتیجہ تھا کہ فرانس نے ترکی کے خلاف بیانات دینے شروع کر دئیے۔ان جارحانہ بیانات کی وجہ سے اکثر و بیشتر ایردوان اور میکرون کے درمیان تند و تیز بیانات کا سلسلہ چلتا رہا جو بعد میں بڑھ کر بحری تنازعے تک پہنچ گیا۔امارات کی حالیہ خباثت جنگ زدہ غزہ میں نظر آئی ۔ پچھلے ہفتے عالمی میڈیا نے شمالی غزہ کے علاقے بیت لاہیہ میں حماس مخالف مظاہرہ کی وڈیو جاری کی، جس میں مظاہرین حماس مخالف نعرے لگا رہے تھے۔ مظاہرین میں بچے بھی شامل تھے۔

اس سے ہفتہ بھر قبل، پہلے سیز فائر وقفے کے بعد اسرائیلی بمباری میں حماس کی "جنگی کابینہ " کے بیشتر افراد شہید کر دئیے گئے تھے۔تحقیقات کے بعد پتا چلا کہ اس کے پیچھے امارات کی وہ میڈیکل ٹیم ہے، جو امداد کے بہانے غزہ پہنچی تھی اور جس نے اپنے فیلڈ ہسپتال قائم کئے تھے۔مصر اور اسرائیل نے صرف اسی ٹیم کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی تھی، دیگر ملکوں کی امدادی ٹیموں کو داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔ چند ہی دنوں میں غزہ کے ڈاکٹروں کو ان پر شک ہو گیا لہذا ان پر نظر رکھی جانے لگی، بالآخر وہ میڈیکل ٹیم امارات واپس چلی گئی۔

حماس کے ترجمان اسامہ حمدان نے ایک وڈیو پیغام میں امارات کو الزام دیتے ہوئے کہا کہ حماس کی جنگی کابینہ کے قتل اور حالیہ مظاہرے میں امارات ملوث ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ اماراتی جعلی ڈاکٹروں کی ٹیم دراصل ان مقامات کا پتا چلانا چاہتی تھی جو راکٹ لانچر پیڈ کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ انہوں نے جو معلومات اسرائیل کو شئیر کی ہوں گی، اس کے نتیجے میں کامیاب اسرائیلی حملے میں حماس کے کم از کم چھ ذمہ دار(جنگی کابینہ کے افراد ) ایک ہی حملے میں شہید کر دئیے گئے۔یہ حماس کا بہت بڑا نقصان ہے۔

یہ ایک جائزہ ہے جو یہ بتانے کو کافی ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے۔ تاریخ کی درست سمت کھڑا ہونا غلام اقوام کے بس کی بات نہیں۔