ہوم << کور کمانڈرز کانفرنس اور ریاستی بیانیے کی نئی جہت - سلمان احمد قریشی

کور کمانڈرز کانفرنس اور ریاستی بیانیے کی نئی جہت - سلمان احمد قریشی

پاکستانی ریاستی نظام میں کورکمانڈرز کانفرنس محض ایک رسمی اجلاس نہیں بلکہ قومی سلامتی، عسکری حکمت عملی اور اندرونی و بیرونی خطرات کے تناظر میں ریاستی بیانیے کے تعین کا ایک اہم اور فیصلہ کن پلیٹ فارم ہے۔ جنرل عاصم منیر کی زیر صدارت منعقد ہونے والی 268ویں کور کمانڈرز کانفرنس میں جو نکات سامنے آئے، وہ نہ صرف عسکری قیادت کی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ ریاست کی آئندہ پالیسی کے خد و خال بھی واضح کرتے ہیں۔کور کمانڈرز کانفرنس ہمیشہ ملکی سلامتی، قومی خودمختاری اور ریاستی اداروں کی سوچ کا مظہر رہی ہے، لیکن 268ویں کورکمانڈرز کانفرنس نے جس غیر مبہم انداز میں بلوچستان کی صورتحال، نیشنل ایکشن پلان کے فوری نفاذ اور ریاستی اداروں کے خلاف جاری ڈیجیٹل یلغار پر گفتگو کی، وہ اس امر کا بین ثبوت ہے کہ ریاست اب مزید کسی ابہام کا شکار نہیں۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں منعقدہ اجلاس نے اس حقیقت کو نہایت دوٹوک انداز میں تسلیم کیا کہ بلوچستان میں انتشار پھیلانے والے ملکی و غیرملکی عناصر کا چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ جو عناصر ریاستی اداروں کو بدنام کرنے، نوجوانوں کو گمراہ کرنے اور ترقیاتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں، ان کے خلاف ’کسی معافی‘ کے بغیر کارروائی کا اعلان اس پختہ عزم کی غمازی کرتا ہے جو افواجِ پاکستان نے ملک کی سالمیت کے تحفظ کے لیے اپنایا ہے۔

کورکمانڈرز کانفرنس میں جو نکات اور فیصلے سامنے آئے، وہ معمول کی کاروائی سے بڑھ کر ایک واضح اور دوٹوک قومی پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بالخصوص بلوچستان کے معاملے پر عسکری قیادت نے جس شدت سے اندرونی و بیرونی عناصر کے گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے اور ان کے خلاف ''کسی معافی کے بغیر'' کارروائی کے اعلان کے ساتھ موقف اپنایا، وہ ریاستی عزم میں شدت کا مظہر ہے۔کانفرنس میں نیشنل ایکشن پلان کے موثر نفاذ پر زور، ضلعی رابطہ کمیٹیوں کی اہمیت، اور ''عزمِ استحکام'' کی حکمت عملی کو دوبارہ مرکزی حیثیت دینا اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں سیکیورٹی پالیسی ایک نئے عملی دور میں داخل ہو رہی ہے۔

اس کانفرنس کا سب سے واضح اور سخت پیغام بلوچستان کے حوالے سے سامنے آیا۔ عسکری قیادت نے کھل کر اور دوٹوک انداز میں اس امر کا اعلان کیا کہ بلوچستان میں انتشار پھیلانے والے عناصر، چاہے وہ ملکی ہوں یا غیر ملکی، اب کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ یہ اعلان معمول کی مذمت سے آگے بڑھ کر ایک فیصلہ کن بیانیہ ہے جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اب بلوچستان میں ریاست ایک نئی حکمت عملی کے تحت، طاقت، قانون اور بیانیے کے اشتراک سے آگے بڑھے گی۔

کانفرنس میں نیشنل ایکشن پلان کے موثر اور فوری نفاذ پر زور دیا گیا۔ اگرچہ نیشنل ایکشن پلان 2014 میں منظور ہوا تھا، مگر اس پر عملدرآمد کی رفتار ہمیشہ تنقید کی زد میں رہی۔ اب جب آرمی چیف نے ضلعی سطح پر قائم رابطہ کمیٹیوں کی فعال کارکردگی کو سراہا ہے اور ''عزمِ استحکام'' کی اصطلاح کو دوبارہ اجاگر کیا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ کانفرنس میں نیشنل ایکشن پلان کے موثر اور فوری نفاذ، ضلعی سطح پر قائم رابطہ کمیٹیوں کے کردار اور ''عزمِ استحکام'' کی حکمت عملی پر زور دیا گیا۔ اس امر سے واضح ہوتا ہے کہ ریاستی ادارے محض بیانات پر نہیں بلکہ زمینی سطح پر مربوط اور منظم عملدرآمد چاہتے ہیں۔ہم ایک نئے عملدرآمدی مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں، اس کے اثرات نہ صرف دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں میں دیکھنے کو ملیں گے بلکہ اندرونی سیکیورٹی پالیسی میں بھی اہم تبدیلیاں متوقع ہیں۔

فورم نے جس طرح ’ڈیجیٹل دہشت گردی‘ کو بھی ریاستی استحکام کے خلاف ایک چیلنج قرار دیا، وہ وقت کی ضرورت ہے۔ آج سوشل میڈیا کے محاذ پر جھوٹے بیانیے، منفی پروپیگنڈے اور ریاست مخالف سازشوں کو آزادی اظہار کا نام دے کر پھیلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں ریاستی اداروں کا محتاط مگر مضبوط موقف بروقت ہے۔کانفرنس کے اعلامیے میں ''ڈیجیٹل دہشت گردی'' کے ذکر سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ اب صرف روایتی جنگ یا دہشت گردی نہیں، بلکہ سوشل میڈیا اور آن لائن بیانیے بھی ریاستی اداروں کے لیے ایک چیلنج سمجھے جا رہے ہیں۔ ڈیجیٹل دہشت گردی کا ذکر، ریاستی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کا سدباب اور قانون پر بلاامتیاز عمل درآمد کا اعادہ سب کچھ اس جانب اشارہ کر رہا ہے کہ عسکری قیادت محض بیانات پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی، بلکہ ٹھوس نتائج کی خواہاں ہے۔ اظہارِ رائے اور ریاستی بیانیے کے درمیان لائن ڈرا ہوگی۔

فورم نے بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور فلسطین کی صورتحال پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ یہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت ان دونوں عالمی تنازعات کو اپنے خارجی بیانیے کا حصہ بنائے رکھنے پر مصر ہے۔ تاہم اصل چیلنج سفارتی سطح پر مستقل مؤثر پیش رفت ہے، جس کے لیے عسکری نہیں، سیاسی و سفارتی قیادت کو فرنٹ فٹ پر آنا ہوگا۔کشمیر اور فلسطین پر موقف کا اعادہ پاکستان کے دیرینہ اصولی مؤقف کو تقویت دیتا ہے۔کانفرنس کا یہ پہلو بھی قابلِ ذکر ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ اور مظلوم خطوں کے حق میں آواز بلند کی گئی، اور بھارت کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں و مظالم پر شدید تشویش ظاہر کی گئی۔ یہ ہماری قومی پالیسی کا مستقل حصہ ہے، جس پر کسی قسم کی مصلحت یا خاموشی ناقابل قبول ہے۔فلسطین اور کشمیر پر پاکستان کا غیر متزلزل مؤقف اور اس فورم کی طرف سے ان مظلوم اقوام سے یکجہتی کا اظہار ہمارے خارجی بیانیے کا تسلسل ہے۔ یہ پہلو ہمارے عوام کو عالمی سطح پر بھی ایک اصولی قوم کی شناخت دیتے ہیں۔ مگر اصل امتحان اب ان پالیسیوں کے عملدرآمد میں ہے۔ اگر یہ فیصلے محض کانفرنس روم تک محدود نہ رہیں اور ان پر پوری ریاستی مشینری ہم آہنگ ہو کر کام کرے، تو یہ کانفرنس ملکی استحکام کی جانب ایک اہم سنگِ میل بن سکتی ہے۔

پاکستان کے عوام افواجِ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کیونکہ ہر محب وطن پاکستانی جانتا ہے کہ دشمن کا اصل ہدف صرف بلوچستان نہیں، بلکہ قومی وحدت، ریاستی ادارے اور پاکستانی شناخت ہے۔ آج سوشل میڈیا پر جس منظم طریقے سے ریاستی اداروں، بالخصوص فوج، کے خلاف نفسیاتی جنگ لڑی جا رہی ہے، اسے کورکمانڈرز کانفرنس نے بجا طور پر ''ڈیجیٹل دہشت گردی'' قرار دیا۔

یہ کانفرنس کئی حوالوں سے ایک اہم موڑ پر منعقد ہوئی ہے۔ ایک طرف بلوچستان میں شورش کے نئے سرے سے سر اٹھانے کی کوششیں جاری ہیں، تو دوسری جانب ملک کی داخلی سیاست میں بے یقینی، اور معاشی میدان میں دباؤ اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسے میں ریاستی اداروں کی یہ مشترکہ پالیسی اعلان ملک میں طاقت کے استعمال، قانون کی عملداری اور قومی بیانیے کی مرکزیت کو مضبوط کرے گا۔ مگر اس کا حقیقی امتحان عملدرآمد میں ہے۔

اگر ان فیصلوں کو بیوروکریسی، قانون نافذ کرنے والے اداروں، اور سیاسی قیادت کی مکمل ہم آہنگی سے عملی جامہ پہنایا گیا تو یہ نہ صرف داخلی استحکام بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے سیکیورٹی پر مبنی بیانیے کو مؤثر بنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔کور کمانڈرز کانفرنس ایک بار پھر اس بات کی یاد دہانی ہے کہ پاکستان کی ریاستی حکمت عملی میں فوج ایک فعال اور مؤثر کردار ادا کرتی ہے۔ تاہم ریاست کی اصل قوت تب ہی سامنے آئے گی جب عسکری اور سیاسی قیادت ایک صفحے پر آ کر ایک متوازن، شفاف اور عوام دوست بیانیہ تشکیل دیں۔ قوم کو اس وقت اتحاد، یکجہتی اور قومی بیانیے کے گرد صف بندی کی ضرورت ہے۔ کورکمانڈرز کانفرنس نے واضح کر دیا ہے کہ پاکستان کو کمزور کرنے والے عناصر کے لیے نہ نرم گوشہ ہے اور نہ رعایت کی گنجائش۔ اب وقت ہے کہ تمام ریاستی ادارے، سیاسی قیادت اور عوام، ایک صف میں کھڑے ہو کر دشمن کو پیغام دیں کہ پاکستان ناقابلِ تسخیر ہے، اور رہے گا۔

ہر ضلع، ہر تھانہ، ہر محلہ اب صرف ایک انتظامی یونٹ نہیں، بلکہ قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہے۔عوام نے ہمیشہ قومی اداروں پر بھروسہ کیا ہے، اور آئندہ بھی کریں گے۔ مگر اب وقت ہے کہ صرف بھروسے سے آگے بڑھ کر ہم اپنی ذمہ داری نبھا ہیں،سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق کریں، سوشل میڈیا کے پروپیگنڈے سے ہوشیار رہیں، اور اپنے نوجوانوں کو گمراہی سے بچائیں۔کورکمانڈرز کانفرنس کا پیغام واضح ہے پاکستان ایک مضبوط ریاست ہے، اور دشمن کی کوئی چال کامیاب نہیں ہو سکتی بشرطیکہ ہم متحد رہیں۔

Comments

Avatar photo

سلمان احمد قریشی

سلمان احمد قریشی اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی، کالم نگار، مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ تین دہائیوں سے صحافت کے میدان میں سرگرم ہیں۔ 25 برس سے "اوکاڑہ ٹاک" کے نام سے اخبار شائع کر رہے ہیں۔ نہ صرف حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اپنے تجربے و بصیرت سے سماجی و سیاسی امور پر منفرد زاویہ پیش کرکے قارئین کو نئی فکر سے روشناس کراتے ہیں۔ تحقیق، تجزیے اور فکر انگیز مباحث پر مبنی چار کتب شائع ہو چکی ہیں

Click here to post a comment