ابتدائی کلاسوں میں ہمیں کاپی پر صرف پینسل سے لکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ دوسری یا تیسری جماعت میں پین استعمال کرنے کی اجازت ملی تو ہمارا ایگل پین سے تعارف ہوا۔ ایگل، جو اپنے اشتہار کے مطابق ایک ”عالمگیر قلم“ ہوا کرتا تھا، ہر طالب علم کی بنیادی ضرورت ہوتا تھا۔ اس پین میں اِنک ڈلتی تھی، جسے ہم سیاہی یا روشنائی بھی کہتے تھے۔ یہ نیلے، کالے، لال اور ہرے رنگ کی ملتی تھی، لیکن زیادہ تر نیلی روشنائی ہی استعمال ہوتی تھی۔ پین اور سیاہی کی بوتل کا سیٹ مجموعی طور پر ”قلم دَوات“ کہلاتا تھا۔
ایگل پین کے آگے پیچھے دو ڈھکن ہوتے تھے۔ بڑے ڈھکن کو کھولنے سے نِب والا حصہ سامنے آتا تھا، جبکہ پیچھے لگا چھوٹا ڈھکن اس وقت کھولا جاتا تھا جب پین میں اِنک، روشنائی یا سیاہی ڈالنی ہوتی تھی۔
پین میں سیاہی بھرنے کا بھی ایک خاص میکینزم ہوتا تھا۔ پین کے پچھلے ڈھکن کو کھولنے پر پلاسٹک کا ایک کالا رولر سا نظر آتا تھا۔ پین کا نب والا سرا سیاہی کی بوتل میں ڈبو کر اس رولر کو انگلیوں سے گھمانے پر پین کے اندر سرنج کی طرح پھنسی ایک ربر آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی جاتی تھی اور اس سے پیدا شدہ ویکیوم کی وجہ سے سیاہی کھنچ کر پین میں بھرتی چلی جاتی تھی۔ بالکل ویسے ہی جیسے انجیکشن میں دوائی بھری جاتی ہے۔
کبھی اچانک سیاہی ختم ہو جاتی تو پین لکھنا بند کر دیتا تھا، اور ایسا اگر امتحان کے دوران ہو جاتا، تو معاملہ بہت تشویشناک ہو سکتا تھا۔ چنانچہ بچے یا تو سیاہی بھرے دو پین ساتھ لے کر آتے، یا پھر ایک بھری ہوئی دَوات ساتھ رکھتے۔ کبھی کبھی یہ دَوات بستے کے اندر ٹوٹ بھی جاتی تھی۔ پھر تو ساری کتابیں اور کاپیاں نیلے نیلے دھبوں سے داغ دار ہوجاتی تھیں اور بُری لگتیں، کیونکہ اس زمانے میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے۔
تقریباً ہر طالب علم کی جیب میں یہ پین اٹکا ہوا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی جیب میں لگا پین بھی سیاہی چھوڑ دیتا تو جیب کے سرے پر بڑا سا دھبہ بن جاتا۔ یہ دھبہ بڑی مشکل سے دور ہوتا۔ اِنک ریموور بھی ملا کرتا تھا، لیکن وہ صرف کاغذ پر کام کرتا تھا۔
لکھتے لکھتے پین اگر ہلکا ہو جاتا تو اسے سائیڈ میں کر کے فرش کی طرف زور سے جھاڑا جاتا، تاکہ پین میں پھنسی سیاہی آگے آ جائے۔ اس عمل سے اسکول کے فرش پر، دیواروں پر، فرنیچر پر، ساتھیوں کے بستوں پر اور اکثر بچوں کے یونیفارم پر بھی سیاہی کے دھبے بن جاتے تھے، جو اسی ”پین جھاڑ“ عمل کا نتیجہ ہوتے تھے۔
کبھی کسی کے پین میں سیاہی ختم ہوجاتی اور دَوات بھی نہ ہوتی، تو سیاہی کسی ساتھی کے پین سے ادھار بھی مانگی جا سکتی تھی۔ اس کیلئے دونوں پینوں کی نبیں اس طرح ایک دوسرے سے ملائی جاتیں جیسے پرندے ایک دوسرے سے چونچ ملاتے ہیں۔ پھر جس بچے کے پین میں سیاہی بھری ہوئی ہوتی وہ اپنے پین کا پچھلا رولر الٹا گھماتا۔ اس طرح اس کے پین سے سیاہی کے قطرے باہر نکلنے لگتے۔ لیکن عین اسی وقت خالی پین والا بچہ اپنے رولر کو سیدھا گھماتا۔ یوں ایک پین سے نکلے ہوئے قطرے دوسرا پین چوستا جاتا اور سیاہی خالی پین میں منتقل ہو جاتی۔ سیاہی ملتے ہی پریشان بچہ مطمئن ہوجاتا اور اپنا کام شروع کر دیتا۔ اگلی مرتبہ وہ بھی اسی طرح کسی کو سیاہی دیتا نظر آتا۔ یوں یہ صدقۂ جاریہ چلتا رہتا۔
ایگل کے پین عام طور سے کالے، نیلے، ہرے اور لال رنگ ہی کے ہوتے تھے، البتہ پھوہڑ اور بھلکڑ بچوں سے ان کے ڈھکن بدل جاتے تو یہ پین رنگ برنگے ہو جاتے تھے۔
اُن دنوں بازار میں جگہ جگہ گھڑی ساز کی طرح پین ساز بھی بیٹھے نظر آتے تھے۔ پین کی مرمت کروانی ہو، نب بدلوانی ہو، ڈھکنا ٹوٹنے یا گم ہونے کی صورت میں دوسرا لینا ہو، ہر کام اس پین ساز کے پاس ہو جاتا تھا۔
کچھ لوگوں کو خطاطی کا شوق ہوتا تھا تو وہ یا تو نِب کا سرا قینچی سے کاٹ کر چوڑا کر لیتے تھے، یا پھر ”زیڈ“ کی چوڑی نِب خرید کر پین میں لگاتے اور اپنی کاپیوں پر خوشخطی سے اپنا نام، بسم اللہ اور یا اللہ یا محمد وغیرہ لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
ایگل خالصتاً پاکستانی پین تھا۔ بعد میں چینی ساختہ ”ہیرو“ پین بھی مشہور ہوا، جو ہوتا تو پلاسٹک کا تھا، لیکن اس کا ڈھکنا اسٹین لیس اسٹیل کا ہوتا تھا۔ پین تو پارکر اور شیفر کمپنی کے بھی ہوتے تھے، لیکن یہ بہت مہنگے ہوتے تھے اور خصوصاً شادی بیاہ کے مواقع پر تحفے میں ملا کرتے تھے۔ بعد میں بال پین آگئے، جن کی شروع میں تو بہت مخالفت ہوئی، لیکن اپنی کم قیمت اور سیاہی ختم ہونے کی پریشانی سے نجات کے باعث رفتہ رفتہ ہر طرف چھا گئے اور سیاہی والے پین غائب ہوتے چلے گئے۔
پارکر اور شیفر جیسے پین تو اب بھی ملتے ہیں، لیکن ہمارا وہ ہمدم و دَم ساز ساتھی ایگل خدا جانے کب بننا بند ہو کر تاریخ کا حصہ بنا اور ماضی کی فضاؤں میں معدوم ہو گیا۔
تبصرہ لکھیے