ہوم << افغان مہاجرین اور پاکستان: کئی بڑی غلط فہمیاں - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

افغان مہاجرین اور پاکستان: کئی بڑی غلط فہمیاں - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

پہلی غلط فہمی: ایران نے مہاجرین کو کیمپوں سے باہر نہیں جانے دیا؛ پاکستان کو بھی ایسا کرنا چاہیے تھا۔
اس غلط فہمی میں مبتلا لوگ کئی حقائق بھول جاتے ہیں۔ مثلاً:
1۔ ایران کا افغانستان میں مفاد بہت محدود تھا، جبکہ پاکستان کےلیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ افغانستان میں شیعہ آبادی کا تناسب ہو، یا فارسی (دری) بولنے والوں کا، دونوں کا کوئی موازنہ سنی آبادی اور پشتو بولنے والوں سے نہیں کیا جاسکتا۔ پھر ایران اور افغانستان کے شیعہ ہوں یا دری/فارسی بولنے والے، ان کا آپس میں اس طرح کا تعلق نہیں تھا جیسا پاکستان اور افغانستان کے سنیوں اور پشتو بولنے والوں کا آپس میں تھا۔

2۔ وہ قبائلی علاقے جو بعد میں پاکستان میں شامل ہوئے، انگریزوں کے دور میں بھی نیم آزاد تھے اور ان پر ریاست کا کنٹرول بس نام کی حد تک تھا۔ ڈیورنڈ لائن کے نام سے جو 2 ہزار کلو میٹر سے زیادہ طویل لکیر 1893ء میں کھینچی گئی تھی، وہ صرف کاغذ پر موجود تھی، بر سرِ زمین اس کا وجود نہیں تھا۔ لائن کے دونوں طرف آزادانہ آمد و رفت کا سلسلہ جاری تھا۔ دور کیوں جائیں، عجب خان آفریدی کی زندگی ہی دیکھ لیں جنھوں نے کوہاٹ میں انگریزوں کو شدید پریشان کیا تھا، اور ان کو افغانستان میں بادشاہ نے زمینیں دی تھیں۔

3۔ پھر پاکستان نے 1970ء کی دہائی کی ابتدا سے ہی افغانستان میں "مجاہدین" کی تربیت شروع کی ہوئی تھی اور سوویت یونین نے جب 1979ء میں افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کیں، تو انھی مجاہدین کی سرکوبی کو وہ اس کا ایک بڑا سبب بتاتا تھا۔ ایران کی جانب سے افغانستان میں ایسا کچھ نہیں تھا۔

4۔ پاکستان کے پالیسی سازوں نے افغان مہاجرین کےلیے تورخم اور چمن کے دروازے کھول دیے تھے، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ پاکستان اپنے دفاع کی جنگ افغانستان میں افغانوں کے ذریعے لڑنا چاہتا تھا۔ بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں تک جانے کی روسی خواہش محض افسانہ نہیں، بلکہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت تھی۔

5۔ جب سال ڈیڑھ سال بعد امریکا بھی اس جنگ میں کود پڑا اور سعودی عرب نے بھی جہاد کا علم بلند کیا، تو بیس کیمپ پاکستان کو ہی بنایا۔ دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران میں ایران میں انقلاب آچکا تھا اور وہ امریکی کیمپ سے نکل چکا تھا۔ نیز شیعہ سنی اور عرب عجم اختلافات کی وجہ سے سعودی عرب کےلیے بھی ایران کے ساتھ مل کر جہاد کا علم بلند کرنا ممکن نہیں تھا۔

ہماری قوم کی یادداشت بہت کمزور ہے، اس لیے یہ حقائق یاد دلانا ضروری ہے۔ یہ اور ایسے کئی دیگر حقائق سامنے رکھیں، تو معلوم ہو کہ کیوں پاکستان اور ایران نے افغان مہاجرین کے متعلق الگ پالیسیاں بنائیں۔

دوسری غلط فہمی: پاکستان نے افغانوں پر احسان کیا۔
یہ غلط فہمی بڑے نامی گرامی لکھاریوں کو لاحق ہے۔ ان لکھاریوں میں کچھ تو وہ ہیں جن کو باقاعدہ لائن دی جاتی ہے جسے ٹو کرنا ان کی مجبوری ہوتی ہے؛ اور کچھ وہ ہیں جو پنج نسلی گوریلوں کے پروپیگنڈا میں آکر پورے خلوصِ نیت سے یہ سمجھتے ہیں کہ واقعی ہم نے کوئی بہت بڑا احسان کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان لکھاریوں میں وہ بھی ہیں جو یہ کہنے کے بعد دوسری سانس میں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’بین الاقوامی تعلقات‘ کی بنیاد مفادات پر ہوتی ہے، نہ کہ اخلاقیات پر؛ لیکن یہ توفیق ان کو نہیں ملتی کہ خود اپنی تضاد بیانی پر ذرا غور تو کریں؛ اگر واقعی بین الاقوامی تعلقات میں اخلاقیات کا کوئی کردار نہیں ہے، تو پھر پاکستان نے کیوں احسان کیا؟

خیر، اس تضاد کو نظر انداز بھی کرلیں، تو اس حقیقت کو کیسے نظر انداز کریں کہ پاکستان نے افغانستان میں سوویت مداخلت سے برسوں پہلے افغان ’مجاہدین‘ کی تربیت شروع کردی تھی، اور یہ کام ملا ضیاء الحق نے نہیں، بلکہ سوشلسٹ بھٹو نے شروع کیا تھا؟
سوویت یونین کا خوف پاکستان کو ابتدا سے ہی لاحق تھا۔ یہ خوف کتنا حقیقی تھا اور کتنا خیالی، اس پر بحث کسی اور وقت کریں گے، لیکن اس وقت یہ یاد کیجیے کہ پاکستان 50 کی دہائی میں ہی امریکا کے ساتھ دو فوجی تنظیموں میں شامل ہوگیا تھا: سیٹو اور سینٹو۔ یہ دونوں تنظیمیں نیٹو کے طرز پر بنائی گئی تھیں اور ان کا مقصد کمیونزم کا پھیلاؤ روکنا تھا۔ نیٹو تو یورپ کےلیے تھی، سیٹو، جنوب مشرقی ایشیا کےلیے اور سینٹو مشرقِ وسطیٰ کےلیے۔ یہ بھی یاد کیجیے کہ پاکستان میں امریکی فوجی اڈے تھے اور جب ایسے ہی ایک اڈے سے اڑنے والا جاسوس طیارہ سوویت یونین نے گرادیا تھا، تو ساتھ ہی سوویت صدر نے پاکستان کے گرد سرخ دائرہ کھینچ دیا تھا۔

نیز، جیسا کہ پیچھے ذکر کیا گیا، بحیرۂ عرب کے گرم پانیوں تک رسائی کا سوویت منصوبہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ اس کے ساتھ قوم پرستوں کو سوویت یونین کی تائید کا فیکٹر بھی شامل کیجیے، تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ سوویت یونین کو افغانستان میں ہی روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا پاکستان کے دفاعی پالیسی سازوں کی نظر میں بے حد ضروری تھا۔ انھی لوگوں کی بات مان لیجیے جو کہتے ہیں کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد مفادات پر ہوتی ہے، تو پاکستان کا افغان مجاہدین کو مدد فراہم کرنا اور افغان مہاجرین کو آنے دینا دونوں کام پاکستان کے بہترین مفاد میں تھے۔
ہاں، یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے، اور کہی جانی چاہیے، کہ پاکستان کی مدد کے بغیر افغانستان کےلیے سوویت یونین کے خوفناک دیو کو پچھاڑنا ممکن نہیں تھا۔ اس لیے احسان دو طرفہ ہوا ہے؛ اور اگر احسان فراموشی ہوئی ہے، تو وہ بھی دو طرفہ ہوئی ہے۔

تیسری غلط فہمی: پاکستان مہاجرین کے متعلق بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے۔
کئی نامور لکھاری اپنا آموختہ دہرا تے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ بین الاقوامی قانون صرف اس ایک معاہدے کا نام نہیں ہے جس پر پاکستان نے دستخط نہیں کیے، بلکہ بہت سارے دیگر ایسے معاہدات بھی بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں جن پر پاکستان نے نہ صرف دستخط کیے ہیں، بلکہ ان کی توثیق کرکے خود کو ان کا پابند کیا ہوا ہے۔ نیز ’بین الاقوامی عرف‘ بھی بین الاقوامی قانون کا ماخذ ہے اور اس عرف سے ثابت شدہ احکام معاہدات سے ثابت شدہ احکام کی طرح، بلکہ بعض پہلوؤں سے اس سے زیادہ، مؤثر اور لازمی ہوتے ہیں۔ معاہدات اور عرف کے علاوہ بین الاقوامی قانون کا ماخذ وہ ’عمومی قانونی اصول‘ بھی ہیں جنھیں ’مہذب اقوام‘ نے تسلیم کیا ہوا ہے۔

اس لیے بے شک پاکستان نے اقوامِ متحدہ کے میثاق براے مہاجرین پر دستخط نہ کیے ہوں، لیکن اس کے باوجود پاکستان افغان مہاجرین کے معاملے میں بین الاقوامی قانون کا پابند ہے۔ مثلاً پاکستان نے چاروں جنیوا معاہدات کی توثیق کی ہوئی ہے۔ کیا جنیوا معاہدات کی رو سے افغان مہاجرین کے حوالے سے پاکستان کی کوئی قانونی ذمہ داری نہیں ہے؟ مثال کے طور پر دیکھیے: چوتھے جنیوا معاہدے کی دفعات 34 تا 46۔ اسی طرح بین الاقوامی قانون کے ماہرین یہ بات مانتے ہیں کہ non-refoulment کا اصول بین الاقوامی عرف کا حصہ بن چکا ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین کو زبردستی واپس دھکیلنا ناجائز ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے بہت سارے اصول، جنھیں پاکستان سمیت دیگر مہذب اقوام نے تسلیم کیا ہوا ہے، ان کے علاوہ ہیں۔ اس لیے صرف ایک معاہدے پر دستخط نہ کرکے پاکستان افغان مہاجرین کے متعلق بین الاقوامی ذمہ داریوں سے جان نہیں چھڑا سکتا۔

البتہ یہ بات ضرور سوچنے کی ہے کہ پاکستان نے اس معاہدے پر دستخط کیوں نہیں کیے؟ کیا اس کی وجہ اس کے علاوہ کچھ ہے کہ پاکستان ان مہاجرین کو مہاجرین کے بجاے ’غیر ملکیوں‘ کے طور پر رکھنا چاہتا ہے تاکہ جب بھی اسے مناسب لگے تو وہ ان ’غیر ملکیوں‘ کو ایک نوٹی فیکیشن جاری کرکے ملک سے نکلنے کا حکم دے سکے؟ بہت پہلے اس ناچیز نے بار بار اس طرف متوجہ کیا تھا کہ پاکستان ان مہاجرین پر مہاجرین کے قانون کے بجاے Foreigners Act کا اطلاق کرتا ہے۔ ہماری پالیسی کا یہ جزو نہ صرف ظلم کی بنیاد ہے بلکہ یہی دلوں میں نفرتوں کے بیج بونے کا بنیادی سبب بھی ہے۔

طرفہ تماشا یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کے میثاق براے مہاجرین پر دستخط نہ کرنے کے باوجود پاکستان اقوامِ متحدہ ہی کے ادارے براے مہاجرین، UNHCR، سے باقاعدہ فنڈز بھی لیتا رہا ہے اور اس کے ساتھ افغان مہاجرین کے متعلق متعدد امور پر سمجھوتے اور مفاہمتی یادداشتیں بھی طے کرچکا ہے۔ افغان مہاجرین کو POR بھی اسی انتظام کے تحت جاری کیے گئے تھے۔ پھر کیسے آپ یکطرفہ طور پر دعوی کرسکتے ہیں کہ آپ ان مہاجرین کے متعلق بین الاقوامی قانون کے پابند نہیں ہیں؟

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment