ہوم << بحری جہاز کے حاجی - عبیداللہ کیہر

بحری جہاز کے حاجی - عبیداللہ کیہر

پچاس ساٹھ سال پہلے بس کا سفر کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔ نہ شہروں کے درمیان سڑکیں اتنی اچھی تھیں کہ ان پر بسوں میں سفر کیا جاسکے، نہ ایسی کوئی بسیں ہی ہوتی تھیں جو دور دراز کی منزلوں تک پہنچا سکیں۔ سفر کا بس ایک ہی ذریعہ ہوتا تھا … ریل گاڑی … اور وہ بھی اس زمانے میں آہستہ آہستہ چلتی تھی اور ہر اسٹیشن پر رکتی تھی۔ بلکہ جا بجا بغیر اسٹیشن کے بھی کھڑی ہو جایا کرتی تھی اور ذرا ذرا سے فاصلوں میں بھی پورا پورا دن لگا دیتی تھیں۔ اس لئے لوگ عام طور پر سفر کرنے سے ہی گھبراتے تھے۔ ہمارا گاؤں جیکب آباد میں تھا اور ہم کراچی میں رہتے تھے۔ سفر میں مشکلات کی وجہ سے ہم بھی گاؤں کم جاتے تھے اور ہمارے رشتے دار بھی بہت کم کراچی آتے تھے۔ بس خط و کتابت کے ذریعے جو رابطہ ہوجاتا وہ ہوجاتا۔

ہاں البتہ ایک سفر ایسا ضرور تھا کہ دشواریوں اور مشکلات کے باوجود ہر شخص کے دل میں اس سفر پر جانے کی تمنا شدت سے موجزن رہتی تھی … اور وہ تھا حج کا سفر۔ 1970ء اور 80ء کے عشرے تک عام طور سے لوگ بحری جہاز کے ذریعے ہی حج پر جاتے تھے۔ اس کیلئے ملک بھر سے حاجیوں کو کراچی آنا پڑتا تھا، کیونکہ بندرگاہ کراچی میں تھی۔ سفینہ حجاج، سفینہ عرب اور سفینہ عابد، یہ تینوں اس زمانے کے معروف مسافر بردار بحری جہاز تھے، جو ہر سال ہزاروں حاجیوں کو بھر بھر کر کراچی سے جدہ پہنچاتے تھے۔

آج کے حساب سے سوچا جائے تو اس زمانے کا حج سستا لگے گا، لیکن ہمیں یاد ہے کہ اس وقت بھی لوگ مہنگائی سے پریشان ہوکر کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ حاجی بھی یہی کہتے کہ حج مہنگا ہوگیا ہے۔ لیکن ہمارے ماموں حاجی امام بخش کیہر نے ایک دن انکشاف کیا کہ حج تو سستا ہوتا جا رہا ہے۔ ہم تو بڑے حیران ہوئے اور پوچھا کہ وہ کیسے؟… کہنے لگے کہ سیدھی سی بات ہے، پہلے چارسو من چاول بیچ کر حج ہوتا تھا، اب تین سو من کے پیسوں میں ہی حج ہوجاتا ہے، تو حج سستا ہوا کہ مہنگا؟… بات تو ان کی ٹھیک ہی تھی۔ افراطِ زر کا شکار کاغذی کرنسی کی بجائے اگر بارٹر سسٹم پر اجناس کے سودے کئے جائیں تو آج بھی ہمیں کئی چیزیں پرانے دور کے مقابلے میں سستی لگیں گی۔

بحری سفر کے حوالے سے اکثر لوگوں کے دل میں یہ خوف بھی ہوتا تھا کہ جہاز دورانِ سفر کہیں ڈوب نہ جائے۔ دوسرا غمگین کرنے والا خیال یہ بھی ہوتا تھا کہ خدا نخواستہ اگر کوئی دورانِ سفر بیمار ہوکر انتقال کر گیا، تو اس کا جسد قبر میں دفن کرنے کی بجائے سمندری لہروں کے حوالے کردیا جائے گا، جہاں اس کا نصیب بس مچھلیوں کی خوراک بننا ہی ہوگا۔ چنانچہ ان بحری حاجیوں کی روانگی کے وقت خوب رونا دھونا مچتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام تر خدشات پر خدا کے گھر پہنچنے کی آرزو ہی غالب رہتی تھی۔

ہمارے رشتے داروں میں بھی ہر سال کوئی نہ کوئی ضرور حج پر جاتا تھا۔ ہم سارا سال ان دنوں کا انتظار کرتے تھے کیونکہ ان حاجیوں کے ساتھ گاؤں سے کچھ الوداع کرنے والے بھی ضرور آیا کرتے تھے جن کے آنے سے گھر میں کئی دن رونق میلہ لگا رہتا تھا۔ عازمین حج تو بیچارے آنسو بہاتے کشاں کشاں سرزمینِ حجاز کی طرف روانہ ہوجاتے، جبکہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ ہمارے کراچی کے سیر سپاٹے شروع ہو جاتے۔

حاجی عام طور پر اپنی ضروریات کا تمام سامان یہیں سے اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، خشک راشن، گھی تیل، مصالحے، دوائیں، صابن، سرمہ اور اللہ جانے کیا کیا۔ امّاں اکثر حاجیانیوں کو اپنے ذاتی کپڑوں کے جوڑے دے کر کہتیں کہ یہ تم وہاں سوتے وقت پہننے کیلئے استعمال کرنا اور جب میلے ہوجائیں تو انہیں دھونا مت، پھاڑ کر وہیں حرمین کی فضاؤں میں اڑا دینا، ہوسکتا ہے کہ ان کپڑوں کی بوسیدہ کترنیں کبھی مجھے بھی وہاں اپنے پاس بلا لیں۔ یہ کہتے کہتے امّاں رونا شروع ہو جاتیں۔

حاجیوں کو سفر سے کچھ دن پہلے کراچی آکر حاجی کیمپ میں بھی رہنا پڑتا تھا۔ ہمارے کچھ رشتے دار گاؤں سے آکر سیدھے حاجی کیمپ ہی چلے جاتے اور ہم ان سے ملنے کیلئے لانڈھی اسٹیشن سے ریل میں بیٹھ کر سٹی اسٹیشن جاتے اور وہاں سے پیدل حاجی کیمپ۔

ایک بار ہم اسی طرح حاجیوں سے مل کر رات کو واپس گھر آرہے تھے۔ امّاں اور ابّا کے ساتھ میں اور چھوٹا بھائی حبیب اللہ تھے۔ سٹی اسٹیشن پہنچ کر ابّا نے لانڈھی کے ٹکٹ لئے اور ہمیں پلیٹ فارم پر کھڑی ریل میں بٹھا کر خدا جانے کس کام سے پلیٹ فارم پر اتر کر کچھ پیچھے گئے ہونگے کہ ٹرین چل پڑی۔ ابّا تو شاید دوڑ کر پیچھے کے کسی ڈبے میں چڑھ گئے، لیکن امّاں گھبرا کر دروازے سے باہر لٹک کر پیچھے دیکھنے لگیں۔ ٹرین نے ابھی معمولی رفتار ہی پکڑی ہوگی کہ امّاں کا ہاتھ چھوٹ گیا اور وہ ٹرین سے باہر زمین پر گر گئیں۔

ہم کھڑکی سے یہ دیکھ کر زور زور سے چیخنے لگے۔ ریل کا گارڈ بھی شاید پچھلے ڈبے سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ اس نے فوراً ہی ٹرین کی زنجیر کھینچی اور گاڑی ایک جھٹکے سے رک گئی۔ لوگ اتر کر تیزی سے امّاں کی طرف لپکے اور ان میں سب سے آگے ہمیں ابّا نظر آئے۔ لوگ امّاں کے قریب پہنچے تو وہ گھبرا کر پہلے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہیں اپنے قدموں پر کھڑے دیکھ کر ہماری کچھ جان میں جان آئی۔

ابّا نے سہارا دے کر امّاں کو دوبارہ ڈبے میں چڑھا دیا اور گاڑی پھر چل پڑی۔ امّاں راستے بھر خوفزدہ اور خاموش بیٹھی رہیں۔ رات گئے گھر پہنچ کر دیکھا تو ان کے گھٹنے بری طرح چھلے ہوئے تھے اور ان سے اب تک خون رس رہا تھا۔ یہ 1973ء کا قصہ ہے۔ 2004ء میں امّاں نے میرے ساتھ عمرہ بھی کیا اور حرمین کی خوب زیارتیں بھی کیں۔ آج امّاں کے انتقال کو کئی سال گزر چکے ہیں، لیکن آج بھی مجھے اُس دن امّاں کے ریل گاڑی سے گر کر زخمی ہونے کی یاد آتی ہے تو دل درد سے بھر جاتا ہے۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment