ہوم << غزہ، آہوں میں لپٹی سرزمین - آصف رندھاوا

غزہ، آہوں میں لپٹی سرزمین - آصف رندھاوا

غزہ…
وہ سرزمین جو کبھی انبیاء کی گزرگاہ تھی، آج لہو کی گلیوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ یہاں ماؤں کی کوکھ اجڑ گئی، بچوں کی ہنسی سسکیوں میں بدل گئی، اور راتیں بارود کے دھوئیں میں دفن ہو گئیں۔ غزہ اب کوئی شہر نہیں، ایک چیخ ہے… جو ہر اذان کے ساتھ آسمان کی طرف اُٹھتی ہے، لیکن جیسے آسمان بھی بہرا ہو گیا ہو۔

یہاں روٹی کے بجائے راکھ بٹتی ہے، پانی کے بہاؤ میں خون شامل ہو چکا ہے، اور زندگی کا ہر دن موت کے سائے میں گزرتا ہے۔ اسکول ملبے بن چکے ہیں، اسپتالوں میں صرف سانسوں کی جنگ رہ گئی ہے۔ بچے اب کھلونے نہیں اٹھاتے، خالی بوتلوں سے ہتھیار بنانے کا فن سیکھ چکے ہیں۔

عالمِ اسلام کی خاموشی چیخوں سے زیادہ گونجتی ہے۔ امت کی آنکھیں نم نہیں، خشک ہو چکی ہیں۔ صرف فلسطینی ماں کی گود میں، اپنے شہید بچے کا سر ہے… جو آسمان کی طرف دیکھ کر بس اتنا کہتی ہے:
"یا اللہ! اب تو انصاف کر۔
غزہ…
یہ نام سنتے ہی ایک آہ نکلتی ہے۔ آنکھیں نمی میں ڈوب جاتی ہیں۔ دل کی دھڑکن جیسے لمحہ بھر کے لیے رک جاتی ہے۔
غزہ کوئی جغرافیائی نقشے پر بنائی گئی ایک پٹی نہیں، یہ تو ایک زخم ہے — امتِ مسلمہ کے دل پر، انسانیت کے سینے پر، تاریخ کے ماتھے پر۔

یہ وہ جگہ ہے جہاں زمین گواہ ہے کہ کس طرح ماؤں نے اپنے جگر گوشے مٹی کے سپرد کیے، کس طرح باپوں نے بیٹیوں کو کفن پہنایا، اور کس طرح بہنوں نے بھائیوں کو بے کفن ملبے تلے تلاش کیا۔

دنیا کہتی ہے "غزہ جنگ میں ہے"، مگر سچ یہ ہے کہ غزہ روز قیامت کے سائے میں ہے۔ یہاں کوئی محاذ نہیں، یہاں صرف قبریں ہیں، وہ بھی کچی…
یہاں کوئی فوج نہیں، صرف بچے ہیں…
جن کی آنکھوں میں اسکول جانے کا خواب تھا، مگر ہتھیاروں کی گرج نے وہ خواب جلادئیے۔

کیا تم نے کبھی کسی دو سالہ بچے کا چہرہ دیکھا ہے جو بارود کے دھوئیں میں سیاہ ہو چکا ہو؟
کیا تم نے کبھی کسی نومولود کو قبر میں جاتے دیکھا ہے، جس نے ابھی "ماں" بولنا بھی نہ سیکھا ہو؟
غزہ میں ایسا روز ہوتا ہے۔

یہاں ہر صبح اذان کے ساتھ لاشیں گنی جاتی ہیں، اور ہر رات آسمان کی طرف دعا نہیں، فریاد اٹھتی ہے۔
"یا اللہ! اب بس کر… ہم تھک چکے ہیں… ہم مر چکے ہیں…"

غزہ کا دکھ وہی سمجھ سکتا ہے جس کے آنگن میں کبھی ایک ہنستا بچہ دوڑا ہو، جس نے ماں کی گود کو چھوا ہو، یا باپ کے کاندھوں پر بیٹھ کر دنیا دیکھی ہو۔
غزہ کے بچے یہ سب خواب لے کر پیدا ہوتے ہیں، اور انہی خوابوں کے کفن میں لپٹے دفن ہو جاتے ہیں۔

وہ ننھی بچی جس نے کل اپنی گڑیا کے لیے چھوٹا سا لباس سیا تھا،
آج وہ خود ایک کفن میں لپٹی ہوئی تھی۔
اور اس کی ماں…؟
صرف چیخ رہی تھی:
"یا اللہ! تو نے مجھے زندہ کیوں رکھا؟ مجھے بھی لے جا… مجھے بھی اس کے ساتھ دفنا دے۔"

غزہ کی گلیاں خاموش نہیں ہوتیں۔
وہ تو ہمیشہ شور میں رہتی ہیں۔
یہ شور بمباری کا ہوتا ہے، یہ شور بچوں کی چیخوں کا ہوتا ہے،
یہ شور اس باپ کی فریاد کا ہوتا ہے جو اپنے پورے خاندان کو ایک ہی ملبے تلے دفن ہوتا دیکھتا ہے۔

کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے سات بچوں کی لاشوں کو اپنی ہی گود میں اٹھا رہا ہو؟
کیا دنیا کے کسی اور کونے میں ایسا ہوا ہے کہ ایک ماں نے اپنی بیٹی کو خود دفنایا ہو، اور پھر ہاتھ جوڑ کر قبر سے کہہ رہی ہو:
"بیٹا! ماں کو معاف کر دینا، تیرے لیے کچھ نہ کر سکی۔"

اقوامِ متحدہ؟
حقوقِ انسانی کے ادارے؟
یورپ؟
امریکہ؟
سارے صرف کاغذی نوٹس پاس کرتے ہیں، وہ نوٹس جن پر غزہ کے بچے اپنا خون چھینٹے ہیں تاکہ شاید دنیا دیکھ لے کہ ہم انسان ہیں۔

لیکن دنیا نہیں دیکھتی۔
نہ سننے کا حوصلہ ہے، نہ بولنے کی جرأت۔
سب کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔

اور امتِ مسلمہ؟
ان کے پاس صرف مذمتی بیانات ہیں۔
"ہم اظہارِ افسوس کرتے ہیں"
"ہم عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں"
"ہم خاموش نہیں بیٹھیں گے"
اور پھر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔

کیا بیت المقدس صرف فلسطین کا ہے؟
کیا قبلۂ اول کا درد صرف غزہ والوں کو محسوس ہوتا ہے؟
کیا ہم سب نے ایمان کا وہ درجہ بھی کھو دیا ہے جس میں ایک مسلمان کا درد دوسرے کو محسوس ہو؟
کیا ہم صرف سہولتوں کے مسلمان رہ گئے ہیں؟

غزہ کی مائیں اب بچوں کو لوریاں نہیں سناتیں، وہ شہادت کے ترانے سناتی ہیں۔
غزہ کے بچے اب کہانیاں نہیں سنتے، وہ مزاحمت کی داستانیں جیتے ہیں۔
غزہ کے نوجوان اب خواب نہیں دیکھتے، وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جیتے ہیں۔

یہ کیسا نظام ہے؟
جہاں مظلوم چیخ رہا ہے اور ظالم تخت پر بیٹھا ہے؟
یہ کیسا انصاف ہے؟
جہاں ہر گولی، ہر بم، ہر ٹینک صرف اُن لوگوں پر گرتا ہے جنہوں نے کچھ نہیں کیا؟
جن کے پاس صرف ایمان ہے، صبر ہے، اور ایک امید —
کہ شاید اللہ کی مدد اب آ جائے۔

اور وہ مدد آئے گی… ضرور آئے گی…
کیونکہ یہ خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
یہ چیخیں عرش کو ہلا رہی ہیں۔
یہ آہیں آسمان پھاڑ رہی ہیں۔
یہ قبریں گواہی دیں گی،
کہ "ہم مظلوم تھے، ہم بے گناہ تھے، ہم مسلمان تھے —
اور ہم نے اپنا خون دے دیا… مگر سر جھکایا نہیں۔"

غزہ!
ہم شرمندہ ہیں۔
ہم بے بس ہیں۔
ہم اپنے شہروں میں عیش کرتے ہوئے، تیرے ملبوں کے نیچے دبی معصومیت کو بھول جاتے ہیں۔
ہم افطار کی میز پر دعائیں تو کرتے ہیں، مگر تیری خبر نہیں لیتے۔
ہم احتجاج کے نعرے لگاتے ہیں، مگر تجھے بچانے کے لیے اٹھتے نہیں۔

مگر اے غزہ…
تو حوصلہ رکھ،
تو صبر کر،
تیرا رب تیری سنتا ہے…
وہ خاموش ہے، بے خبر نہیں۔
وہ دیر کرتا ہے، اندھیر نہیں۔

وہ دن ضرور آئے گا جب ظلم کا محل ٹوٹے گا،
جب بیت المقدس کی فضا پھر اذانوں سے گونجے گی،
جب تیرے بچے ہنستے کھیلتے ہوں گے،
اور یہ سیاہ رات ختم ہو جائے گی۔

اور اس دن…
ہم سب شرمندہ ہوں گے کہ ہم کچھ نہ کر سکے…
مگر تیرا کردار، تیری قربانی، تیری عزت…
ہمیشہ تاریخ میں زندہ رہے گی۔
کیونکہ تو غزہ ہے…
تو سرزمینِ غیرت ہے…
تو امت کی غیرت ہے…
اور تیری گواہی زمین بھی دے گی، آسمان بھی دے گا