شہر سو ہی گیا
ایک مدت سے جاگا ہوا شہر آخر کو سو ہی گیا
چادرِ خاک کو اپنا بستر کیے
اور سرھانے میں ملبے کا تکیہ لیے
دائمی نیند یعنی دمِ حشر تک
شہر سو ہی گیا
رتجگوں کی دکھن کا مداوا ہوا
سات عشروں کی کلفت سکوں پا گئی
تین نسلوں کی آنکھوں کی سوزش کو آخر قرار آ گیا
اپنے سارے الم، اپنے سارے مِحَن، اور سارے ستم، لے کے زیرِ کفن شہر سو ہی گیا
معرکے کی حکایت بس اتنی سی ہے
صحنِ مقتل میں لاشوں کے انبار تھے
شہر یارِ عزیمت کے ٹوٹے ہوئے بازوؤں اور ہاتھوں میں کچھ بھی نہ تھا
ہاں مگر اک عصا!
اور مقابل میں توپوں کا انبوہ تھا
خود ہی سوچو کہ چوبِ شکستہ کا آہن سے کیا جوڑ ہے!
ایک خیمہ الاؤ سے کتنا لڑے!
مَشْک تیروں کے آگے کہاں تک ٹکے!
یہ جنوں کی حکایت تھی اور اس حکایت میں جاں کا زیاں عام سی بات ہے
پس جنوں آشنا
لے کے نامِ خدا
شہر سو ہی گیا
یرمیاہِ زمانہ! مجھے یہ بتا:
اس میں رونے سسکنے کی کیا بات ہے!
آنکھ سے اشک بہنے کی کیا بات ہے!
شہر آشوب کہنے کی کیا بات ہے!
ایک مدت تلک اُن فصیلوں سے اڑتی ہوئی دھول نے عشرتوں کو ہماری مکدر کیا اور ہم چپ رہے
نغمۂ شادمانی میں آہ و بکا کے خلل کو بہت دن گوارا کیا
بار ہا زخم سے خون رستا ہوا سرحدوں سے نکل کر ادھر آ گیا
اور ہم اس "جسارت" پہ ساکت رہے
کوئی کب تک اٹھاتا یہ بارِ وفا!
سو یہ اچھا ہوا
شہر سو ہی گیا
تبصرہ لکھیے