ہوم << پانی بچائیں، درخت لگائیں، زندگی محفوظ کریں! - بلال شوکت آزاد

پانی بچائیں، درخت لگائیں، زندگی محفوظ کریں! - بلال شوکت آزاد

سمندر کے کنارے کھڑے ہوکر اگر آپ غور کریں تو ایک سناٹا آپ کے وجود میں اترتا محسوس ہوگا۔ پانی کی بے پناہ وسعت، اس کی نیلگوں گہرائی اور سطح پر لہروں کی اضطراب انگیز حرکت — یہ سب انسان کو اس کی اوقات یاد دلاتے ہیں۔ مگر یہی پانی جو کل تک انسانی عظمت و وقار کی علامت تھا، آج ہماری بے حسی کا گواہ بن چکا ہے۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ وہ دن دور نہیں جب انسان اپنی پیاس بجھانے کے لیے اسی سمندر کو حسرت سے دیکھے گا، مگر پی نہیں سکے گا۔

یہ بات کوئی قیامت کا خواب نہیں، نہ ہی کسی دیوانے کا واہمہ ہے۔ یہ وہ المیہ ہے جس کی دستک دروازے پر نہیں بلکہ اب ہمارے گلے کی رگ پر ہے۔ 14 اپریل 2025 کے بعد حکومتِ وقت نے پانی کی فراہمی میں واضح کمی کا عندیہ دے دیا ہے۔ تمام چھوٹے بڑے ڈیمز خطرناک حد تک خالی ہو چکے ہیں۔ زیر زمین پانی کی سطح زمین سے زیادہ نیچے جا چکی ہے اور اب کھدائی صرف پانی کے سراب تک لے جاتی ہے۔ ہم اُس خطے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ماحولیاتی تباہی دستک نہیں دیتی، وہ لات مار کر اندر آتی ہے — اور ہم بے حسی کی چادر اوڑھے بے خبر سوئے رہتے ہیں۔

تاریخ کے جھروکوں سے اگر ہم جھانکیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ عظیم تہذیبیں پانی کے سبب پروان چڑھیں اور پانی کی قلت ہی ان کے زوال کی بنیاد بنی۔ موئن جو دڑو، ہڑپہ، بابل، سب پانی کے کنارے آباد ہوئیں، لیکن جب پانی نے منہ موڑا تو تاریخ نے بھی ان سے منہ موڑ لیا۔ آج ہم اسی دہانے پر کھڑے ہیں، مگر فرق یہ ہے کہ ہمارے پاس تمام تر سائنسی ترقی اور اعداد و شمار کے باوجود احساس کی وہ کمی ہے جو ان تباہ شدہ تہذیبوں کو شاید معاف کر دی گئی تھی۔

یہ کیسا ستم ہے کہ دنیا کے پاس موجود پانی کا 97.3 فیصد نمکین ہے؟ صرف 2.7 فیصد پانی پینے کے قابل ہے، اور اُس میں بھی پاکستان کا حصہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے آبی ذخائر میں وہ سکت ہی نہیں رہی کہ وہ اگلی نسل کے لیے ایک گھونٹ پانی بچا سکیں۔ اور ہم؟ ہم روزانہ کی بنیاد پر گاڑی دھونے، صحن سنوارنے اور فٹ پاتھ پر پانی بہا کر اپنی دانست میں صفائی کا فریضہ انجام دے کر سُرخرو ہو رہے ہیں۔ گھر کے نل ٹپک رہے ہیں، فلش کی ٹینکیاں پانی کی آخری ہچکیاں لے رہی ہیں، مگر ہماری آنکھیں بند ہیں اور ضمیر گہری نیند میں مدہوش۔

اور درخت؟ ان کی کہانی تو المیہ کی آخری قسط ہے۔ ہم نے درخت کو محض لکڑی اور سایہ سمجھا، لیکن یہ وہ محافظ ہیں جو زیر زمین پانی کی حفاظت کرتے ہیں، بارشیں لاتے ہیں، زمین کی نمی برقرار رکھتے ہیں، آکسیجن فراہم کرتے ہیں، اور درجہ حرارت کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ مگر ہم نے ان کے وجود کو اپنے مفادات کے تیشے سے کاٹ ڈالا۔ درخت کٹ گئے، زمین تپنے لگی، پانی بھاگ گیا، اور ہم آج اُسی پانی کی بوند کو ترس رہے ہیں جسے کل ہم نے بہادیا تھا۔

کہنے کو ہم 22 کروڑ کا ملک ہیں، مگر ہمارے پاس صرف 2 بڑے ڈیم ہیں — تربیلا اور منگلا۔ اور ان کی گنجائش میں اضافہ کب ہوا؟ آخری ڈیم بنے کئی دہائیاں بیت گئیں۔ ہم نے نہ نئے ذخائر بنائے، نہ موجودہ کو سنبھالا۔ ہم نے نہ عوام کو تعلیم دی، نہ آگاہی دی۔ بس اپنے اقتدار کی کشتی کو عوام کے سر پر چلا کر ہم سمجھ بیٹھے کہ وقت ہمارے قبضے میں ہے۔

آج اگر ہم نے خود کو نہ بدلا، تو کل نہ صرف ہماری نسلیں ہمیں کوسیں گی بلکہ زمین خود ہمیں اپنے سینے سے نکال پھینکے گی۔ پینے کے لیے پانی میسر نہ ہوگا، فصلیں سوکھ جائیں گی، دریا نالے بن جائیں گے، اور دریاؤں کا خواب صرف نصابی کتابوں میں رہ جائے گا۔

ہمیں اب انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک پانی بچاؤ تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔ ہر شخص کو اپنا نل ٹھیک کروانا ہوگا۔ ہر گھر کو بارش کے پانی کو جمع کرنے کا نظام اپنانا ہوگا۔ ہر شہر کو واٹر ری سائیکلنگ پلانٹ کی طرف جانا ہوگا۔ ہر تعلیمی ادارے کو پانی کی اہمیت کے شعور کو نصاب میں شامل کرنا ہوگا۔ ہر مسجد، ہر گلی، ہر چوراہے پر یہ نعرہ گونجنا چاہیے:

"خدارا پانی بچائیں، درخت لگائیں، زندگیاں بچائیں!"

درخت ہر اس جگہ لگائیں جہاں زمین سلامت ہے، پانی کے ضیاع سے بچیں، حکومتی سطح پر پانی کے ذخائر بنانے کی پالیسیوں کا مطالبہ کریں، اور سب سے بڑھ کر اپنے بچوں کو پانی کی قدر سکھائیں۔ کیونکہ اگر ہم نے آج یہ شعور نہ دیا تو کل وہ ہمیں پانی کے ایک گھونٹ کے لیے ترستے ہوئے چھوڑ جائیں گے۔

یہ تحریر کسی مہم کا حصہ نہیں، یہ زندگی کی جنگ کا اعلان ہے۔ اس میں ہیرو وہ ہوگا جو نل بند کرے گا، جو درخت لگائے گا، جو دوسروں کو سکھائے گا کہ پانی حیات ہے، پانی نجات ہے، پانی قوموں کی قسمتوں کا تعین کرتا ہے۔

آئیے! اب مزید غفلت نہیں۔ آئیے اپنے حصے کی شمع جلائیں۔ ایک ایک بوند بچائیں۔ ایک ایک درخت لگائیں۔ کیونکہ زمین تو ہماری ماں ہے — اور ماں اگر پیاسی ہو جائے تو اولاد کبھی سیراب نہیں ہو سکتی۔

اب فیصلہ ہمیں کرنا ہے، یا تو ہم شعور بانٹ کر زندگی بچا لیں یا پھر بے حسی کی سولی پر خود کو اور اپنی نسلوں کو چڑھا دیں۔

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment