گزشتہ چند برسوں میں جو ظلم ملتان کی سرزمین، اس کے سائے دار درختوں اور آموں سے لدے باغوں پر ڈھایا گیا، وہ کسی موسمی یا قدرتی آفت کا نتیجہ نہ تھا بلکہ انسانی حرص، مفاد پرستی اور ترقی کے نام پر بے رحم منصوبہ بندی کا شاخسانہ ہے۔
گزشتہ دہائی میں ملتان جیسے زرخیز اور سرسبز خطے میں ترقی کے نام پر تقریباً 20,000 ایکڑ پر پھیلے آم کے باغات اور دیگر قیمتی درختوں کو بے دردی سے کاٹ کر رہائشی کالونیاں قائم کی گئیں۔ اگر صرف آم کے درختوں کی بات کی جائے تو فی ایکڑ اوسطاً 60 درخت لگائے جاتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ کم از کم 12 لاکھ آم کے درخت اس مدت میں ختم کر دیے گئے۔ لیکن اگر دیگر اقسام جیسے نیم، بیری، شیشم، شہتوت، کچنار اور یوکلپٹس کو بھی شامل کیا جائے، تو درختوں کی اوسط تعداد فی ایکڑ 100 سے بھی تجاوز کر سکتی ہے، جو ہمیں یہ ظاہر کرتی ہے کہ کم و بیش 20 سے 25 لاکھ درخت زمین سے مٹا دیے گئے۔ ان درختوں کی کٹائی نے نہ صرف فطری ماحول کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ گرمیوں کی شدت، ہوا کی آلودگی، زمین کی زرخیزی اور مقامی حیاتیاتی نظام پر بھی تباہ کن اثرات مرتب کیے۔
ملتان، جو کبھی موسمِ گرما کے تاجدار آم کا مرکزِ ناز تھا، جہاں کی مٹی سے خاص مہک اٹھتی تھی، جہاں دھوپ کے بھی اپنے ادب تھے اور جہاں باغات کی چھاؤں میں قافلے دم لیتے تھے، اب سنگ و سیمنٹ کی بے حس بستیوں میں بدلتا جا رہا ہے۔ اس خطے کا آم نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالمگیر سطح پر اپنی لطافت، مٹھاس، خوشبو اور رنگت کے باعث ایک منفرد مقام رکھتا تھا۔ اگر ہم اس قیمتی نعمت کو عالمی منڈیوں میں منظم انداز سے برآمد کرتے تو جنوبی پنجاب نہ صرف اربوں روپے زرِ مبادلہ کما سکتا تھا بلکہ کسانوں کو خوشحالی، ملکی معیشت کو استحکام اور پاکستان کو زرعی برآمدات کے میدان میں نمایاں حیثیت حاصل ہو سکتی تھی۔
ہم نے تجارت کے فطری وسائل کو ختم کرکے عارضی منافع کی چکاچوند کو ترجیح دی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ملتان ایک اُجڑا ہوا سایہ بن چکا ہے، جس کی گرم سانسوں میں ماضی کی ٹھنڈی چھاؤں کی صدائیں ابھی بھی سسک رہی ہیں۔ پرانی نہریں سوکھ گئیں، باغات کی جگہ سیمنٹ کے بلاکس نے لے لی، اور جہاں کبھی ہوا میں پھلوں کی خوشبو ہوتی تھی، اب دھول، دھواں اور شور غالب آ چکا ہے۔ درخت صرف سایہ دینے یا پھل مہیا کرنے کا ذریعہ نہیں تھے، بلکہ وہ اس زمین کی روح تھے، جنہوں نے نسلوں کو سانس لینے کی مہلت دی، بارشوں کو روکا، زمینی پانی کو محفوظ رکھا اور گرمی کی شدت کو کم کیا۔ ان کی کٹائی سے ہم نے خود اپنی جڑیں کاٹ دی ہیں، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک بنجر، گرم اور بے حس دنیا چھوڑنے کی تیاری کر لی ہے۔
اپریل، جو کبھی پھولوں اور ہلکی ہوا کا مہینہ ہوا کرتا تھا، اب مئی و جون کی جھلسا دینے والی حدت کا عکس بن چکا ہے۔ فضائیں بے قرار، دھوپ بے رحم، اور زمین دہکتے لوہے کی مانند ہو چکی ہے۔ گرمی کی شدت صرف موسم کا مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے اجتماعی اعمال کا ننگا آئینہ ہے۔ یہ عمل صرف ماحول دشمنی نہیں بلکہ فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے، جس کی قیمت ہمیں اور ہماری آنے والی نسلوں کو اپنی سانسوں، پانی، اور زندگی سے چکانی پڑے گی۔ اگر آج بھی ہم نہ جاگے، نہ رُکے، اور نہ پلٹے، تو وہ وقت دور نہیں جب ہماری زمین کے باسی صرف درختوں کی تصویریں، آموں کی خوشبو اور بارش کی نمی کو صرف خوابوں میں تلاش کریں گے۔
درخت کاٹ کے پوچھا فضا سے کیا گزری،
ہوا نے رو کے کہا، سانس بھی امانت تھی
تبصرہ لکھیے