بعض اوقات قومیں خود اپنے لیے مسائل کا تانا بانا بنتی ہیں اور پھر انہی الجھنوں میں خود کو قید کر دیتی ہیں۔ پھر شور ہوتا ہے، دہائیاں دی جاتی ہیں، معاشرتی بگاڑ پر سیمینارز ہوتے ہیں، مہمات چلائی جاتی ہیں، لیکن اصل سبب کو ہاتھ لگانے سے سب کتراتے ہیں۔ مسئلہ عورت کی آزادی کا ہو یا مرد کی حاکمیت کا، نکاح کی جگہ تعلقاتِ آزاد کا فیشن ہو یا خاندانی نظام کا زوال—ہر سِرے پر ایک چیز مشترک ہے: دیر سے شادی۔ لیکن اِس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں کرتا، کیونکہ جو مرض لاحق ہے وہ اجتماعی ہے، اور ہر مرض زدہ کو اپنا مرض جائز لگتا ہے۔
اسلام نے جس عمر میں نکاح کی تلقین کی، آج ہم اس پر شرمندہ ہیں۔ ہم نے اپنی بیٹیوں کو "خودمختاری" اور "کیرئیر" کے نام پر شادی سے دور رکھا، اور بیٹوں کو "مستقبل سنوارنے" کے جنون میں گھر بسانے سے روکے رکھا۔ نتیجہ؟ ایک ایسا معاشرہ جس میں بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی جسمانی و جذباتی تقاضے سراٹھاتے ہیں، لیکن اُن تقاضوں کے لیے جائز راستہ مفقود ہے۔ اور جب جائز راستہ بند ہو، تو ناجائز راستے کھل جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا، شارٹ ویڈیوز، ڈیٹنگ ایپس، اور ڈیجیٹل عریانی کے اس دور میں نوجوان نسل جس ذہنی کشمکش سے گزر رہی ہے، اس کا اندازہ اُن والدین کو نہیں ہو سکتا جو اپنی اولاد کو صرف "اچھی نوکری" یا "ڈگری" کی فائل میں قید کر کے سکون سے سونا چاہتے ہیں۔
آپ روز خبریں پڑھتے ہیں: ہراسمنٹ، گینگ ریپ، سیکسٹورشن، سکول و کالج میں بے راہ روی، دفتر میں بدکاری، یہاں تک کہ قریبی رشتوں میں جنسی زیادتیاں۔ لیکن کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کیونکہ اگر اصل وجہ بتا دی جائے تو ہمارا خودساختہ تمدن زمین بوس ہو جائے۔
دیر سے شادی کا کلچر اب ایک نئے "سوشل سٹیٹس" کا استعارہ بن چکا ہے۔ والدین سمجھتے ہیں کہ جب تک لڑکی ڈاکٹر، انجینئر، بیوروکریٹ نہ بن جائے، تب تک رخصت نہیں ہونی چاہیے۔ اور لڑکا؟ وہ بھی کم از کم پچاس ہزار لاکھ روپیہ تنخواہ کا غلام بننے تک "نکاح کے قابل" نہیں سمجھا جاتا۔ والدین کو لگتا ہے کہ بیٹی کو شوہر نہیں، خریدار ملنا چاہیے۔ اور پھر جب وہ "خریدار" دیر سے آتا ہے، تو بیٹی کی زندگی بھی آہستہ آہستہ تنہائی کے اندھیروں میں ڈوبنے لگتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہر جذبے کے لیے ایک جائز دائرہ مقرر کیا ہے۔ بلوغت کے بعد انسان کے اندر جو جنسی، جذباتی اور ذہنی تبدیلیاں آتی ہیں، وہ قدرتی نظام کا حصہ ہیں۔ لیکن ہم نے فطرت کو تہذیب کے نام پر باندھ رکھا ہے۔ ہم اُس فطری تقاضے کو پورا کرنے کے لیے نہ صرف تاخیر کرتے ہیں، بلکہ اسے گناہ سمجھ کر دباتے ہیں۔ اور پھر جب نوجوان گناہ کی طرف مائل ہوتا ہے تو اُسے مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ بھئی جسے وقت پر کھانا نہ ملے، وہ چوری نہیں تو کیا کرے؟
اسلام نے نکاح کو آسان اور زنا کو مشکل بنانے کا حکم دیا تھا، ہم نے الٹا کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں شادی کی رسومات، مہنگے جہیز، شادی ہالز کے اخراجات، لباس، میک اپ، مہندی، بارات، ولیمہ۔۔۔یہ سب کسی لڑکی کے نکاح کو خواب بنا دیتے ہیں۔ آج نکاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ وہ روایات ہیں جو ہم نے خود ایجاد کی ہیں۔
آج کا نوجوان لڑکا ہو یا لڑکی، شدید دباؤ کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر سب کچھ دستیاب ہے، بس جائز نہیں ہے۔ وہ جسمانی طلب کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، اور نتیجہ ڈپریشن، اینزائٹی، اور ذہنی خلل کی صورت میں نکلتا ہے۔
آپ کو لگتا ہے کہ لڑکی کے لیے "کیرئیر" ہی سب کچھ ہے؟ ذرا اُس لڑکی کی حالت دیکھیں جو ہاسٹل میں رہتی ہے، دن رات سوشل میڈیا کی زہر آلود لہروں میں بہتی ہے، اور کوئی رشتہ نہیں جو اُسے تحفظ دے۔
یورپ میں آزادی نسواں نے عورت کو آزادی دی نہیں، بلکہ اکیلا کر دیا ہے۔ وہ ماں بننے کے جذبے سے محروم ہے، اُس کی گود بانجھ ہو چکی ہے۔ اور ہم بھی اسی راہ پر ہیں۔
عورت کا اصل تحفظ شوہر کی محبت اور خاندان کی چھاؤں ہے، نہ کہ نوکری اور پرائیویسی کی دیواریں۔
آج مغرب کا سب سے بڑا مسئلہ "سول لِونگ"، غیر ازدواجی تعلقات، طلاق کی شرح، اور اکیلی ماؤں کا بڑھتا ہوا گراف ہے۔ ان کے پاس دولت ہے، سہولت ہے، مگر دل کا سکون نہیں ہے۔ ہم بھی اگر یہی روش اپنائیں گے تو وہی نتائج بھگتیں گے۔
حل کیا ہے؟
1. نکاح کو آسان بنایا جائے۔
2. تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دی جائے کہ شادی زندگی کا اہم حصہ ہے۔
3. معاشرتی دباؤ اور مالی تقاضوں کو کم کر کے سادہ شادیوں کو فروغ دیا جائے۔
4. لڑکیوں کے والدین کو یہ بات سمجھانی ہوگی کہ بیٹی کا شوہر اس کی زندگی کا ساتھی ہے، کوئی خریدار نہیں۔
5. نوجوانوں کو بلوغت کے بعد فوری نکاح کی ترغیب دی جائے، تاکہ وہ فتنوں سے بچ سکیں۔
اگر ہم نے دیر سے شادی کے فتنہ کو نہ پہچانا، تو یہ طوفان ہماری پوری نسل کو بہا لے جائے گا۔ جنہیں ہم ترقی، مہذب معاشرہ، اور آزادی کہہ کر دیر سے شادی پر اکسا رہے ہیں، وہی کل ہمیں نسل پرستی، جنسی بے راہ روی، ذہنی بیماریوں اور خاندانی بگاڑ کا شکار بنا کر چھوڑیں گے۔
یاد رکھیں! فطرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہوتا۔ دیر سے شادی، ایک معاشرتی خودکشی ہے—جو بظاہر خوشنما لگتی ہے، مگر اندر ہی اندر قوم کے خمیر کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
آج فیصلہ ہمیں کرنا ہے، کہ ہمیں ترقی یافتہ بننا ہے یا تباہ حال؟ مہذب کہلانا ہے یا محفوظ رہنا ہے؟ خاندان بچانا ہے یا فیشن؟ نکاح کو اپنانا ہے یا نفس کا غلام بن کر معاشرے کو گناہوں کی دلدل میں جھونک دینا ہے؟
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے۔۔۔ لیکن وقت بہت کم ہے!
تبصرہ لکھیے