ہوم << موجودہ دور میں دینی تعلیم کی ضرورت - عمر فاروق

موجودہ دور میں دینی تعلیم کی ضرورت - عمر فاروق

دینی تعلیم کسی بھی مسلمان کی زندگی کا بنیادی جزو ہے، جو نہ صرف اس کے روحانی ارتقاء کا سبب بنتی ہے بلکہ دنیاوی معاملات میں بھی اسے راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ موجودہ دور میں جب مادیت، الحاد، فکری انتشار اور دینی بے راہ روی اپنے عروج پر ہے، دینی تعلیم کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس تحریر میں ہم دینی تعلیم کی ضرورت، اس کے فوائد اور اس کی عدم موجودگی کے نقصانات پر تفصیلی گفتگو کریں گے۔

اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اگر دینی تعلیم کو پس پشت ڈال دیا جائے تو آئندہ نسلوں میں دین کی حقیقی روح باقی نہیں رہے گی اور لوگ اسلامی تعلیمات سے ناآشنا ہو جائیں گے۔ دینی تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اسلام کا پیغام نسل در نسل منتقل ہوتا ہے اور لوگ اپنی زندگی کو قرآن و سنت کے مطابق گزارنے کے قابل ہوتے ہیں۔

موجودہ دور میں اخلاقی اقدار کا زوال عام ہو چکا ہے۔ جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، بدعنوانی، بے حیائی اور دیگر اخلاقی برائیاں تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ دینی تعلیم انسان کو اچھائی اور برائی میں فرق سکھاتی ہے اور اس کے کردار کو سنوارتی ہے۔ جب ایک انسان دینی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اس میں خوفِ خدا اور جوابدہی کا احساس پیدا ہوتا ہے، جو اسے نیک اعمال کی طرف راغب کرتا ہے۔

آج کے سائنسی اور تکنیکی دور میں جہاں علم و شعور میں اضافہ ہوا ہے، وہیں الحاد اور دینی تعلیمات کے خلاف فکری انتشار بھی عام ہو گیا ہے۔ مغربی افکار اور مادہ پرستی نے لوگوں کے ذہنوں میں دین کے خلاف شکوک و شبہات پیدا کر دیے ہیں۔ دینی تعلیم نوجوان نسل کو اسلامی عقائد و نظریات کی مضبوطی فراہم کرتی ہے اور انہیں گمراہی سے بچانے میں مدد دیتی ہے۔

اسلامی تعلیمات کے بغیر ایک مسلمان اپنی زندگی کو درست طریقے سے نہیں گزار سکتا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، حلال و حرام، اسلامی معاملات، تجارت، ازدواجی زندگی اور دیگر تمام امور میں قرآن و حدیث کی رہنمائی ضروری ہے۔ دینی تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو ہمیں ان تمام معاملات میں اسلامی نقطۂ نظر فراہم کرتی ہے۔

اسلام صرف دنیاوی کامیابی پر زور نہیں دیتا بلکہ آخرت کی فلاح کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ دینی تعلیم انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہو اور آخرت میں بھی سرخرو ہو۔ ایک نیک اور دیندار شخص اپنے اعمال کا حساب رکھتا ہے اور اس دنیا کو امتحان گاہ سمجھ کر اپنی آخرت کی تیاری کرتا ہے۔

مغربی طرزِ زندگی نے خاندانی نظام کو کمزور کر دیا ہے اور طلاق کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں خاندانی نظام کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ دینی تعلیم والدین، اولاد، میاں بیوی اور دیگر رشتوں کے حقوق و فرائض سکھاتی ہے، جس سے گھر کا ماحول خوشگوار بنتا ہے اور ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔

اکثر لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ دینی تعلیم حاصل کرنے سے دنیاوی ترقی رک جاتی ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلامی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جابر بن حیان، ابن سینا، الخوارزمی اور دیگر کئی مسلمان سائنسدان دینی علوم میں بھی ماہر تھے اور دنیاوی علوم میں بھی اعلیٰ مقام رکھتے تھے۔ دینی اور دنیاوی علوم کا امتزاج ہی ایک مکمل انسان کی تشکیل کرتا ہے۔

موجودہ دور میں دینی تعلیم کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ یہ نہ صرف فرد کی زندگی میں اصلاح پیدا کرتی ہے بلکہ ایک بہتر معاشرے کی تشکیل میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کو دینی تعلیم سے محروم کر دیں گے تو وہ دین سے دور ہو جائیں گے اور مغربی تہذیب کے زیرِ اثر اپنی اسلامی شناخت کھو بیٹھیں گے۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم دینی تعلیم کو عام کریں اور اسے اپنی روزمرہ زندگی کا حصہ بنائیں تاکہ دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکیں۔