ہوم << حضور کا شوق تماشا سلامت رہے - احساس بھٹی

حضور کا شوق تماشا سلامت رہے - احساس بھٹی

احساس بھٹی مغل بادشاہ شاہ عالم کے ولی عہد جہاندار شاہ کا دور حکومت نہایت مختصر ہے. تقریبا ایک سال پر محیط اس مختصر دور کو مغل شہنشاہ نے عرصہ غنیمت سمجھ کر گزارا۔ دہلی کی ایک مشہور طوائف لال کنور جہاندار شاہ کی بہت چہیتی تھی۔ ایک دن لال کنور نے بادشاہ سے خواہش کی کہ میں نے آج تک کوئی ڈوبتا ہوا شخص نہیں دیکھا۔ بادشاہ نے کہا یہ کون سی بڑی بات ہے۔ فوراً ملاحوں کو حکم صادر فرمایا کہ چالیس ایسے آدمی تلاش کیے جائیں جو تیرنا نہ جانتے ہوں، شاہی فرمان کی تعمیل ہوئی، ملاحوں نے چالیس ایسے آدمیوں کو جو بالکل تیرنا نہیں جانتے تھے، دریا پار کرانے کے بہانے کشتی میں بٹھایا اور دریا کے عین وسط میں کشتی الٹ دی۔ملاح خود تو تیر کر باہر آگئے، لال کنور نے بادشاہ کے پہلو میں کنارے پر کھڑے ہوکر چالیس آدمیوں کے ڈوبنے کا تماشہ دیکھا۔ کچھ لوگوں کو شاید اس واقعے کی حقانیت پر یقین نہ آئے، تصدیق کےلیے ڈاکٹر رشید امجد کی کتاب "اردو شاعری کی فکری روایت" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
تین صدیاں گزرگئیں، آج بھی وہی تماشاہے، وہی شوق تماشا ہے، وہی ڈوبتوں کو دیکھنے کا جنون ہے. ڈوبنے والے بدل گئے، تماش بین بدل گئے مگر تماشا نہیں بدلا۔ برسات کا موسم ہے تو سمجھو سیلاب کا موسم ہے۔گزشتہ برس سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرین کے دلوں پرلگنے والے زخموں کے گھائو ابھی نہیں بھرے اور دریائوں نے پھرسے سیلاب اگلنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں پچھلے سال کے واقعات رہ رہ کریاد آ رہے ہیں کیونکہ یہی واقعات پھر دہرائے جائیں گے۔ وہی بیانات، وہی نمائشی ہمدردیاں اور روایتی ڈرامے۔ وزیراعظم اپنے شوق تماشا کی تسکین کے لیے سندھ کے سیلاب متاثرین کے علامتی ریلیف کیمپوں کا دورہ کرتے ہیں جو ان کے اڑن کھٹولے کے اڑان بھرتے ہی اڑن چھو ہوجاتاہے، وزیراعلیٰ پنجاب ڈوبتوں کو دیکھنے کے شوق میں ہرسال سیلاب میں فوٹو سیشن کراتے ہیں، اب ان کے صاحبزادے نے بھی اپنے پدر بزرگوار سے یہ شوق تماشا وراثت میں لے لیا ہے، ادھر ایک بلاول ہیں، وہ بھی اس شوق میں اپنے حریفوں سے پیچھے نہیں، ڈوبنے والوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے ہوئے وہ بھی فوٹو سیشن میں مصروف رہے. ادھر ہمیں وہ مصرعہ یاد آیا
وہ بھیگ رہی تھی بارش میں اور آگ لگی تھی پانی میں۔
رہ گئے عمران خان تو وہ بھی تماش بینوں کی فہرست میں کسی سے پیچھے نہیں۔ کبھی سیلاب زدہ علاقوں کا فضائی دورہ کرکے شوق تماشا کو تسکین بخشی تو کبھی سیلابی پانی میں گاڑی دوڑانے کا کرتب دکھا کر مصاحبوں سے داد سمیٹی۔
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے
تین صدیاں گزرنے کے باوجود نہ تو تماشہ بدلا اور نہ ہی شوق تماشا میں کمی آئی۔ ڈوبتوں کو دیکھنے کے شوقین یہ "لال کنوروں" کے لاڈلے ہمارے ڈوبنے کا تماشہ یونہی دیکھتے رہیں گے۔ مگر کالا باغ ڈیم کی بات کرنے والا غدار ہی ٹھہرے گا۔ کیوں؟۔ کیونکہ ڈیم میں فوٹو سیشن کو ہیروگری نہیں کہا جاسکتا، اسے پکنک کہا جاتا ہے۔ شوق تماشا کی تسکین تو درحقیقت سیلاب میں ڈوب کر مرنے والوں کو دیکھنے سے ہی ہوتی ہے۔

Comments

Click here to post a comment