ہماری آوازیں فقط شور ہیں وہ شور جو سوتی آلودگی پھیلانے کے سوا کچھ نہیں. ہم کبھی قوم بن ہی نہیں سکے کیوںکہ قوم کے پاس ایک مقصد ہوتا ہے. ایک وقار، ایک تہذیب، ایک بامعنی آواز، ایک شعور، مگر ہماری آوازوں میں سوائے کھوکھلے نعروں کے اور کچھ بھی نہیں. اور یہ شور اب ہماری سماعتوں کے ساتھ ہماری سوچ اور عقل کے پردوں کو چیر رہا ہے۔
ہماری 78 سال کی تاریخ محض شورکی بنیاد پر قائم ہے. وہ شور جس میں ہمارا وقار، عزت، خودداری اور ہماری قومی شعور دب کر رہ گیا۔ اس شور کو ہر دور میں چند خود پرستوں نے اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا۔ آج 2025 میں جہاں دنیا اپنے مفادات اور وقار کے لیے دن رات کوشاں ہے، وہیں ہم پاکستانی شور کرنے میں مصروف ہیں. آج ہم نوجوان دنیا کے تمام پہلوؤں کو جاننے اور مختلف علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد بھی اس شور کا نہ صرف حصہ ہیں بلکہ اس کو مزید بڑھا رہے ہیں.
ہمیں آج کے دور میں اپنی درد ناک تاریخ کے پنوں کو جلا کر ایک باشعور آواز بلند کر کے ایک قوم اور ملک بننے کی ضرورت تھی، مگر ہم اس شور کے ذریعے کہیں مذہب پرستی، کہیں شخصیت پرستی، کہیں قوم پرستی اور کہیں وطن پرستی میں مبتلا ہیں. ان عنوانات کے نام پر ہمارے دماغوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ رہی سہی کسر ہمیں ایسی خرافات میں مصروف کر دینا ہے جو کسی بھی باشعور دماغ کے لیے ناسور ہیں۔ آج کوئی بھی گھر، مذہبی درس گاہ، تعلیمی ادارہ، سوشل میڈیا پلیٹ فارم، ٹی وی چینل، معاشرے اور ملک کا کوئی بھی شعور دینے والا ذریعہ اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں آپ کو فقط شوروغل کے سوا کچھ نظر نہیں آئے گا۔
یہ وہ شور ہے جو ہمیں نسل در نسل ملا ہے. اس کی پرورش چند لوگوں نے کی اور ہمارے دماغوں کو منتقل کیا۔ یہ شور یہ بےمعنی آوازیں ہمارے حال اور مستقبل کو تاریک بنا رہی ہیں. ہمیں اپنی آوازوں کو مدھم رکھ کر ان کو ایک راستہ دینا ہو گا، ایک قوم کی آواز بنانا ہو گا، ورنہ یہ ہمارا مستقبل بہرا بنا دیں گی، اور اس بہرے مستقبل میں رہنا شاید ممکن نہ رہے. ہم نوجوانوں کی آوازوں کو جنون نہیں شعور دیں، انھیں بولنا نہیں اچھا بولنا اور سوچنا سکھائیں، ورنہ ہجوم کے اس شور کو روشن مستقبل نہیں ملے گا.
تبصرہ لکھیے