جب سے اس خوبصورت دھرتی پر بنی نوع انسان کا ظہور ہوا ہے تب سے وہ اپنی آسائش کی خاطر اس کے پوشیدہ خزانوں کی تلاش میں مگن ہے، اس جستجو میں وہ بہت سے سربستہ رازوں کو آشکار کر چکا ہے، ان خزانوں میں زیر زمین معدنی ذخائر بھی شامل ہیں، زیر زمین معدنی ذخائر کا جہاں بے دریغ استعمال ہو رہا ہے وہاں اس دھرتی کا فطرتی حسن بھی پامال ہو رہا ہے، جس کی تدارک انفرادی و اجتماعی دونوں صورتوں میں ناگزیر ہو چکا ہے۔
موسمیاتی تغیر، موسمیاتی تبدیلی یا کلائمیٹ چینج ایک ایسا عنوان ہے جس کی جانب عوام الناس کی توجہ مبذول کرانا بہت اہم ہے، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اس کے وجوہات کو سمجھنا بہت ضروری ہے، عموماً بہت سارے عوامل ہیں لیکن مضمون کی طوالت کو مدنظر رکھتے ہوئے اختصار کے ساتھ چند عوامل کا ذکر کیا جائے گا۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات میں ایک بڑا حصہ گرین ہاؤس گیسوں کا ہے, گرین ہاوس گیسز کو اگر سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو یہ وہ گیسز ہیں جو ہمارے کرہ ہوائی یعنی ایٹماسفیئر کے اندر گرمائش کو ضبط کر لیتے ہیں اور مجموعی طور پر گرمائش کو بیرونی خلا میں خارج ہونے سے روکتے ہیں، اور نتیجتاً عالمی درجہ حرارت کو بڑھاتے ہیں جسے گلوبل وارمنگ بھی کہتے ہیں، ایسے گیسز کی مثال، کاربن ڈائی آکسائڈ، آبی بخارات، میتھین اور کلورو فلورو کاربنز ہیں، اس کے علاوہ یہ ایٹماسفیئر کے ارد گرد اوزون کی تہہ کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں، اوزون تہہ یا اوزون لئیر ایک قدرتی لئیر ہے جو ایٹماسفئر اور خلا کے بیچ میں کرہ ارض کے ارد گرد حائل ہے اور سورج سے آنے والی ضرر رساں شعاعوں کو روکتی ہے اور کرہ ارض کے درجہ حرارت کو معقول رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، پس ہم یہ کہنے مین حق بجانب ہیں کہ گرین ہاؤس گیسز کا کرہ ارض کی مجموعی درجہ حرارت کو بڑھانے میں ایک اہم کردار ہے۔
اب آتے ہیں ان کی وجوہات کی طرف جو گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کا سبب بنتے ہیں، یہ وجوہات قدرتی اور مصنوعی ہیں جن میں سے مصنوعی کا روک تھام کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور ان میں انڈسٹریل انفراسٹرکچر ہے جو کاربن اور میتھین خارج کرنے کا بڑا ذریعہ ہے، اس کے ساتھ ٹمبر مافیا اور دوسرے عناصر کی جانب سے جنگلات کی کٹائی، ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جنگلات قدرتی پھیپھڑے ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتی ہیں اور تازہ آکسیجن ماحول کو مہیا کرتی ہیں۔ قدرتی عوامل میں سمندر آبی جھیلیں اور نمدار زمینیں ہیں جن سے آبی بخارات کا اخراج ہوتا ہے لیکن ان کا اثر قدرے کم ہے۔ فضا میں ان گیسز کے اخراج سے موسمیاتی تبدیلی کا عظیم چیلنج درپیش ہے، موسمیاتی تبدیلی کے سبب عالمی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے، جس سے سمندری و پہاڑی گلیشئر پگھل رہے ہیں اور سمندری پانی میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان سے سمندر کنارے آباد شہروں کے زیر آب آنے جیسے شدید خطرات لاحق ہیں، مزید گلوبل وارمنگ کے سبب بارشوں کا قدرتی نظام متاثر ہو رہا ہے، بر وقت بارشوں کی کمیابی اور بے وقت بارشیں فصلوں اور اور میوہ جات کیلئے زہر قاتل ثابت ہو رہی ہیں، اور سیلاب کا ذریعہ بھی ہیں، دریا کنارے جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ سے زرعی زمینیں دریا برد ہو رہی ہیں۔
ان وجوہات پر قابو پانے کیلئے ان کا سدباب ہونا انتہائی ضروری ہے، اقوام متحدہ کا ایس ڈی جی 13، کلائمیٹ ایکشن کے بارے میں آگاہی دیتا ہے جس کا موٹو ہے، "موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کیلئے بروقت اقدام ضروری ہے" . انفرادی و اجتماعی سطح پر ایس ڈی جی 13 پر عمل درآمد و آگاہی بہت اہم ہے، فوسل فیول پر چلنے والی صنعتوں کا روک تھام بہت ضروری ہے اور ریونیو ایبل توانائی کی طرف رخ کرنا چاہئیے، اس کے ساتھ ساتھ موسم بہار و موسم برسات میں شجرکاری مہم کو فروغ دینا چاہئیے، دریا کنارے درخت اگانے چاہیے تاکہ سیلابی صورتحال میں زمینی کٹاؤ کو روکا جا سکے، حکومتی سطح پر بھی ایس ڈی جی 13 یعنی کلائمیٹ ایکشن پر عملدرآمد ہونا وقت کی پکار بن چکا ہے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف حاصل ہو اور مزید نقصان ہونے میں کمی لائی جا سکے۔
تبصرہ لکھیے