جب ہم بیت غوفرین سے باہر نکلے جس کے قریب وہ گاؤں واقع ہے جہاں جنگ اجنادین لڑی گئی تھی تو سورج نصف النہار پر پہنچ چکا تھا، دھوپ کی شدت میں اضافہ ہوگیا تھا۔ لیکن ٹھنڈی ٹھنڈی بہت خوشگوار سی ہوا چل رہی تھی ۔جس کی وجہ سے یہ تپش ناگوار نہیں محسوس ہوتی تھی ۔ ابو خالد کہنے لگا کہ ڈاکٹرصاحب! یہاں سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک صحابی رسول کی قبر ہے جو کسی دور میں اس سارے علاقے کے مالک تھے ۔ صحابی رسول کی قبر مبارکہ کا سن کر میں نے اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا : ”درکارِ خیر، حاجت ھیچ استخارہ نیست‘‘ یعنی نیک کام کے لیے استخارے کی ضرورت نہیں ہوتی . حافظ کا مصرعہ تو اس کی سمجھ میں نہ آیا لیکن میرے چہرے سے پھوٹتی روشنی نے اسے اس کا مطلب سمجھا دیا اور اس نے اپنی گاڑی کا رخ بیت جبرین کی طرف موڑ لیا جس کے نواح میں وہ مقبرہ واقع تھا۔
میں نے ابو خالد سے اس صحابی کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ ان کا نام حضرت تمیم الداری تھا۔ نام کچھ سنا سنا تھا ۔ لیکن کوشش کے باوجود یاد نہ آیا کہ وہ صحابی کون تھے۔ میرے چہرے پر کشمکش کے آثار دیکھ کر اس نے خود ہی ان کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔ وہ ٹیکسی ڈرائیور کم اور ایک سکہ بند کہانی گو زیادہ لگ رہاتھا۔ وہ کہہ رہا تھا کہ حضرت تمیم بن اوس الداری رضی تعالیٰ عنہ مذہباً عیسائی تھے اور فلسطین کے قصبے الخلیل کے رہنے والے تھے، جہاں مسجد خلیل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے سارے خانوادے کے ساتھ دفن ہیں ۔ ان کا تعلق قبیلہ لخم کی ایک شاخ الدار سے تھا۔ ۶۲۸ء میں فتح خیبر کے بعد اپنے بھائی نعیم اور قبیلے کے دس اور آدمیوں کے ساتھ حضور اکرم ﷺ سے قبیلہ الدار کی زمین کے تنازعے کے سلسلے میں ملنے کے لیے مدینہ آئے جو وادی خیبر میں تھی ۔ اور پھر ان کی نظروں کے ایسے اسیر ہوئے کہ وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ وہ بتا رہا تھا کہ حضرت تمیم الداری ہی وہ صحابی ہیں جن کی ملاقات ایک بحری سفر کے دوران ایک جزیرے میں دجال سے ہوئی تھی، اور جب انہوں نے اس ملاقات کا احوال رسول اکرم ﷺ سے بیان کیا تو آپ ﷺ نے تصدیق کی کہ وہ واقعی دجال تھا جن سے وہ ایک جزیرے میں ملے تھے۔ اس کا تفصیلی ذکر حدیث کی تقریباً ساری ہی کتابوں میں موجود ہے۔
اسی دوران ہم بیت جبرین کےمضافاتی علاقے میں پہنچ گئے ۔ قصبے کی طرف جانی والی سڑک سے کوئی دو اڑھائی فرلانگ دور دائیں طرف گھنے درختوں کے سائے میں ایک کھنڈر نما ہشت پہلو عمارت نظر آرہی تھی ۔ ابو خالد نے بتایا کہ یہی ” مقام تمیم داری “ ہے۔ سڑک سے اتر کر ایک کچے رستے پر دھول اڑاتے ہم ان کے مقبرے پر پہنچ گئے۔ مقبرہ بڑی خستہ حالت میں تھا. اس کے اردگرد ہر طرف جھاڑ جھنکاڑ پھیلا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ چھت پر بھی جھاڑیاں اگی تھیں ۔ مقبرے کی اندرونی صورت حال اس سے بھی ابتر تھی۔ فرش پر گرد وغبار کی تہہ جمی تھی. چھت پر جالے لٹک رہے تھے۔ لگتا تھا عرصے سے اس کی صفائی نہیں ہوئی ۔
1967ء کی عرب اسر ائیل جنگ کے دوران یہودیوں نے ان کا مقبرہ تباہ کر دیا تھا تاکہ اس علاقے میں فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاسکے ۔ چند سالوں کے بعد مقامی لوگوں نے یہ مقبرہ دوبارہ تعمیر کر لیا۔ لیکن ۲۰۰۰ء میں تیسری انتقاضہ تحریک کے دوران یہودی آباد کاروں نے اپنے منصوبے کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے پہلے حضرت تمیم الداری کے مقبرے کو بم سے اڑایا ۔ اور پھر انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کو جبراً اس علاقے سے بے دخل کر کے ان کی زمینوں پر قبضہ مکمل کرلیا ۔ مقامی مسلمانوں نے کئی بار اس مقبرے کی تعمیر کی اجازت مانگی لیکن یہودی حکومت نے ہمیشہ انکار کیا۔ جس پر انہوں نے اپنے وسائل سے چوری چھپے جیسے تیسے اس کی مرمت کی ۔ آج کل اس علاقے میں مسلمانوں کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے اس مقبرے کی دیکھ بھال کا کوئی مستقل بندوبست موجود نہیں، اور نہ ہی یہودی اس کی اجازت دیتے ہیں ۔ لہٰذا مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے یہ مقبرہ بڑی کسمپرسی کی حالت میں ہے ۔
ابو خالد گاڑی سے جھاڑو اٹھا لایا۔ اور اندورنی کمرے کی صفائی کرنے لگا۔ چھوٹا سا کمرہ تھا منٹوں میں صاف ہو گیا۔ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ پھر اس نے پلاسٹک کے ایک تھیلے سے گلاب کے پھول نکالے اور انہیں بڑی محبت سے قبر پر بکھیر دیا اور عطر کی شیشی کھول کر ساری بوتل قبر پر انڈیل دی ۔ کمرہ اعلیٰ درجے کے عود کی خوشبو سے مہک اٹھا۔ اس نے بتایا کہ یہودی اس علاقے میں مسلمان سیاحوں کی آمدورفت پسند نہیں کرتے، اس لیے اس مقبرے کا ذکر کسی بھی سیاحتی کتابچے میں موجود نہیں، اور نہ ہی وہ سیاحوں اور زائرین کے بڑے گروپس کو یہاں آنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ تمھارے جیسے چند ہی لوگ یہاں آتے ہیں جنھیں ایسی جگہوں کی کھوج ہوتی ہے. میں جب بھی یہاں آتا ہوں تو اس کی صفائی کیے بغیر واپس نہیں جاتا۔ ہم لوگ زیادہ دیر وہاں نہ ٹھہر سکے ۔ اور فاتحہ پڑھ کر واپس لوٹ آئے۔
اسلام لانے کے بعد حضرت تمیم الداری رضی تعالیٰ عنہ تیس سال تک مدینہ میں مقیم رہے، انھوں نے تمام غزوات میں حصہ لیا۔ لیکن ۶۵۶ء میں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں ہونے والے تفرقے اور جنگ سے دل برداشتہ ہو کر واپس اپنے وطن آگئے ۔ حضرت تمیم الداری کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ مسجد نبوی میں چراغ جلانے کا سلسلہ سب سے پہلے انھوں نے شروع کیا تھا۔ ایک روز حضور اکرم ﷺ عشاء کی نماز پڑھانے کے لیے اپنے حجرے سے باہر تشریف لائے تو مسجد نبوی قندیلوں کی روشنی میں جگمگا رہی تھی۔ پوچھنے پر صحابہ نے حضرت تمیم داری کی طرف اشارہ کیا۔ جس پر آپ ﷺ بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ تم پر اللّہ کی رحمت ہو ۔ تم نے بہت اچھا کام کیا ہے۔ اگر میری کوئی بیٹی ہوتی تو میں اس کی شادی تم سے کر دیتا۔ جس پر حضرت نوفل بن حارث آگے بڑھے اور اپنی بیوہ بیٹی ام مغیرہ کا رشتہ انھیں پیش کیا. (پہلے ان کا نکاح براء یاابوالبراء سے ہوا تھا) آپ ﷺ نے اسی مجلس میں ام المغیرہ سے حضرت تمیم الداری رضی تعالیٰ عنہ کا نکاح پڑھا دیا۔
۶۳۱ء میں ایک دن جب سب صحابہ رسول اکرم ﷺ کی مجلس میں شریک تھے تو حضرت تمیم الداری نے اٹھ کر گزارش کی کہ انھیں فلسطین کے اس حصے کی عملداری دے دی جائے، جہاں ان کا قبیلہ آباد تھا۔ حالانکہ اس وقت سارا فلسطین رومیوں کے قبضے میں تھا، اور رومی اس وقت دنیا کی سب بڑی طاقت تھے۔ اور عرب کے اس دور دراز علاقے میں صحرا نشین بدؤں کی اس محفل میں کوئی دیوانہ ایسی خواہش کر سکتا تھا نہ کوئی فرزانہ یہ تصور کر سکتا تھا کہ رومیوں کی زمین کی ملکیت کوئی اپنے کسی ساتھی کو بخش سکتا ہے۔ آپ ﷺ ان کی خواہش کو سن کر مسکرائے اور حضرت علی کرم اللّہ وجہہ کو تحریری سند لکھنے کا حکم دیا، جس کی رو سے ہیبرون ، الخلیل شہر( جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقبرہ ہے )، بیت عینیون ، بیت جبرین اور اس کے گردونواح کا سارا علاقہ حضرت تمیم داری کی ملکیت میں لکھ دیا گیا۔ اس معاہدے پر حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی تعالیٰ عنہ اور خزیمہ بن قیس رضی تعالیٰ عنہ نے بطور گواہ دستخط کیے ۔ اس دستاویز کی عبارت طبری اور ابن ہشام نے اپنی کتابوں میں نقل کی ہے۔
اس واقعے کے سات سال بعد ۶۳۸ ء میں فلسطین فتح ہوا اور حضرت عمر رضی تعالیٰ عنہ یروشلم کے پادریوں کی فرمائش پر فلسطین تشریف لائے تو انھوں نے حضرت تمیم الداری کو بلا کر اس معاہدے کے مطابق ان علاقوں کی عملداری ان کے حوالے کر دی، جس کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا، لیکن اس کے باوجود انھوں نے اپنے نبی ﷺ کا شہر چھوڑنا گوارہ نہ کیا اور بدستور مدینہ میں ہی مقیم رہے۔ فتح الباری میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللّہ عنہ نے تراویح باجماعت قائم کی تومردوں کا امام ابی بن کعب کو اور عورتوں کا امام تمیم داری رضی اللّہ عنہ کومقرر کیا۔
اسلام سے پہلے آپ کا شمار علماء نصاریٰ میں ہوتا تھا، قبول اسلام کے بعد علمی ذوق قرآن مجید کی جانب منتقل ہو گیا اور اس سے پوری واقفیت پیدا کی. ابو قتادہ کا قول ہے:”کان من علما أهل الكتابين“ یعنی وہ اہل کتاب کے علماء میں سے تھے. آپ کا شمار ان صحابہ رضی اللّہ عنہم اجمعین میں کیا جاتا ہے، جنھوں نے عہد نبوی میں قرآن جمع کیا تھا۔ ۶۵۶ء میں حضرت عثمان رضی تعالیٰ عنہ کے دور میں مسلمانوں کی باہمی لڑائیوں کی وجہ سے وہ بڑے دل برداشتہ ہوئے اور مستقل طور پر فلسطین آ کر آباد ہوگئے۔ ارباب طبقات میں ہے کہ مدینہ سے واپسی کے بعدگوشہ نشینی اختیار کرلی اور آخر عمرتک زاہدانہ اور درویشانہ زندگی بسر کی۔ آپ کے کوئی اولادِ نرینہ نہ تھی، صرف ایک صاحبزادی رقیہ تھیں، جن کی نسبت سے آپ کی کنیت ابورقیہ ہے۔ ۶۶۱ء میں ان کا انتقال بیت جبرین میں ہوا ۔ وہ یہیں دفن ہوئے۔
۱۰۷۳ء میں سلجوقوں کے دور حکومت میں اس علاقے کی ملکیت پر جھگڑا کھڑا ہوا۔ یہاں کے عیسائی باشندوں نے الداری قبیلے کو اس علاقے سے بے دخل کرکے اس پر قبضہ پر کر لیا، تو یہ مسئلہ یروشلم کے قاضی ابو حاتم الہراوی الحنفی کی عدالت میں پیش ہوا۔ الداری قبیلے کی وکالت امام غزالی نے کی جو اس وقت اتفاق سے فلسطین میں رہائش پذیر تھے. یوں یہ علاقہ دوبارہ الداری قبیلے کو واپس مل گیا.
بیت جبرین یروشلم سے کوئی چالیس کلومیٹر دور شمال کی طرف واقع ہے۔ اورحضرت تمیم الداری کا مقبرہ بیت جبرین سے باہر اس چوراہے پر موجود ہے، جہاں سے بیت غوفرین بیت نیر ، بیت جبرین اور یروشلم کو راستے نکلتے ہیں ۔ کلاؤڈ آر کونڈر Claude R Conder ایک برطانوی ماہر آثار قدیمہ اور بڑٹش آرمی میں کرنل تھا۔ جس نے ۱۸۷۲-۷۴ میں برٹش گورنمنٹ کے لیے فلسطین اور شام اور اردن کا جغرافیائی سروے کیا۔ اور ان علاقوں کا ایک مکمل نقشہ مرتب کیا۔ اس نے ۱۸۷۸ء میں لکھی گئی اپنی کتاب ٹینٹ ورک ان فلسطین Tent work in Palestine میں بڑی تفصیل سے حضرت تمیم الداری اور ان کے مقبرے کا ذکر کیا ہے۔ اس نے ان کا ذکر شیخ تمیم الداری کے نام سے کیا ہے. خاص طور پر اس نے اس واقعے پر بڑی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عقل اس بات کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے کہ کیسے فلسطین کی فتح سے سات سال پہلے ہی ”بدوی عرب کے ایک گمنام سردار “نے بیت جیرون ، بیت عینیون ، الخلیل اور اس کے اردگرد کے علاقے کی ملکیت شیخ تمیم الداری کو لکھ کر عطا کر دی تھی۔ جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کے قبضے میں تھا۔ توفیق کنعان نے بھی اپنی کتاب Mohammedan Saint and Sanctuaries میں اس مقبرے کا بہت تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔
شمس الدین المقدسی دسویں صدی عیسوی کے بہت مشہور اور مستند تاریخ نویس اور جغرافیہ دان ہیں، وہ 940ء کو یروشلم میں پیدا ہوئے ۔ وہ یروشلم میں قاضی کے عہدے پر فائز تھے ۔ انہوں نے 985ء میں دمشق کی سیر بھی کی ۔ ان کا انتقال 991ء کو قاہرہ میں ہوا . ان کی کتاب ”أحـسـن الـتـقـاسـيـم في مـعـرفـة الأقـالـيـم“ جس کا انگریزی میں ترجمہ The Best Divisions in the Knowledge of the Regions کے نام سے ہوا ہے ۔ مشرق وسطیٰ اور خاص طور پر فلسطین کے حوالے سے ایک انتہائی شاندار اور مستند کتاب ہے، جس میں انھوں نے فلسطین کے سارے مقدس مقامات کے حوالے سے بڑی تفصیل لکھی ہے. ان کی اس کتاب کو آج بھی اہل مغرب بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور فلسطین کےحوالے سے ایک ریفرنس بک مانا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی ایک اور کتاب Description of Syria (Including Palestine) آج بھی اہل علم کے لیے مشعل راہ ہے ۔ انےوں نے بھی اپنی کتاب میں حضرت تمیم الداری کے مقبرے اور یہاں ہونے والے سالانہ عرس کا ذکر کیا ہے۔
تمیم الداری کا مقبرہ گو کہ آج کسمپرسی کی حالت میں ہے، ان کی قبر گرچہ آج بے یارو مدد گار ہے، لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ڈیرھ ہزار سال پہلے فوت ہونے والے تمیم الداری کی ملکیت آج بھی ان زمینوں پر مسلم ہے، کیونکہ اس ملکیت کا فرمان میرے رسول اکرم صلعم نے انھیں دیا تھا، ورنہ یہودی ان زمینوں پر قبضے کے لیے نہ تو بار بار ان کے مقبرے کو تباہ کرتے اور نہ ہی اسے بے نام وگمنام رکھنے کی کوششیں کرتے۔ صدیوں پہلے بھی ان زمینوں کی ملکیت کا تنازع قاضی کی عدالت میں گیا تھا ۔ اس وقت عدالت یروشلم کے قاضی ابو حاتم الہراوی الحنفی کی تھی. آج ایک بار پھر یہ مقدمہ عدالت میں ہے، لیکن اس بار عدالت میرے اللہ کی ہے۔ اس اللہ کی ، جو قادر وعادل بھی ہے اور خیر الماکرین بھی۔
( یہ مضمون میری کتاب “ اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے )
تبصرہ لکھیے