پاکستان کا خواب ہمارے بڑوں نے دیکھا تھا ۔ 23 مارچ 1940 کو اس کے حصول کےلیے منظم کوشش کا آغاز ہوا ۔ لاہور ، مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ایک قرارداد منظور ہوئی ۔ اس میں مسلمانانِ ہند کےلیے باقاعدہ علاحدہ وطن کا مطالبہ کیا گیا ۔ یہ قرارداد بعد میں قراردادِ پاکستان کے نام سے مشہور ہوئی ۔ اس کے محض سات سال بعد ہی پہلی نظریاتی مملکت دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگئی ۔
اس مطالبے کا بنیادی نقطہ یہ تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے ایک الگ قوم ہیں ، جو اپنا ایک مکمل ضابطہ حیات رکھتے ہیں ۔ عقائد و نظریات ، اقدار و روایات ، رسوم و عبادات ، خوشی غمی کے طریقے ، زاویہ فکر اور طرز حیات غرض ہر شے میں وہ تمام اقوام سے جدا ہیں ۔ جغرافیہ کو بنیاد بنا کر مسلمان ، ہندو ، سکھ ، بدھ مت اور برصغیر میں بسنے والی دیگر اقوام کو ایک قوم نہیں کہا جاسکتا۔ قومیں رنگ ، نسل ، زبان یا علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ عقیدے اور نظرئیے کی اساس پر وجود میں آتی ہیں ۔
قیام پاکستان کا مقصد یہ تھا کہ خدا کی سرزمین پر خدا کا نظام قائم کیا جاسکے ۔ ایک ایسی جگہ جہاں مسلمان آزادی سے اپنے عقائد و نظریات کے مطابق زندگی گزار کر خدا کی خوشنودی حاصل کرسکیں ۔ ہمارے بزرگ اس قطعہ ارض کو اسلام کے آفاقی ، فطرتی اور معتدل اصولوں کےلیے ایک تجربہ گاہ کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ وہ ایک ایسی ریاست کے طلب گار تھے جہاں اسلامی طرز حیات کا مکمل نفاذ ہو ۔ اس طرح یہ ملک تمام ممالک کےلیے ایک مثالی نمونہ بن سکے اور دنیا ، اسلامی اصولوں ، تہذیب و ثقافت اور اقدار و روایات کے فوائد و برکات کو کھلی آنکھوں دیکھ سکے ۔
تحریک پاکستان جب زوروں پر تھی تو ہر گلی کوچے ، ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر ایک ہی نعرہ تھا ۔ ” لے کے رہیں پاکستان “ ، ” دینا پڑے گا پاکستان “ ، ” پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ “ جب عوام ، پاکستان کے حصول کےلیے کوشش اور اس کوشش میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کررہے تھے ، تو ان کے ذہنوں میں پاکستان کا مطلب بالکل واضح تھا اور وہ تھا لا الہ الا اللہ ۔ اس کا مطلب تھا کہ اس ملک میں حقیقی حکمرانی صرف اللہ کی ہوگی ۔ اسلام اور اس کے اصولوں کا بول بالا ہوگا ۔ ہم اس کے آخری اور سچے دین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر اس کی رضا کے خواہاں ہوں گے ۔
ایک تو آزادی کے وہ نعرے تھے جو تحریک پاکستان کے دوران ہر عام و خاص کے لبوں پر تھے اور ایک اب جب بھی مارچ کا مہینہ آتا ہے تو آزادی کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ان نعروں کی گونج بڑھتی جاتی ہی ۔ جب ہم ان دونوں قسموں کے نعروں اور ان کے مقاصد پر غور و حوض کرتے ہیں تو اس کے نتائج ہمارے رونگھٹے کھڑے کردیتے ہیں ۔ تب ہم اپنی تہذیب ، اپنی ثقافت اور اپنی اقدار کے تحفظ کےلیے انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی چاہتے تھے اور اب خدانخواستہ اپنی اقدار سے ہی آزادی چاہتے ہیں ۔ اس وقت ہم اسلام پر آزادی سے عمل کرنے کےلیے ایک الگ ملک کے طلب گار تھے اور اس وقت اسلام ہی ہمیں پابندی اور اپنی خواہشات کی تکمیل کی راہ میں واحد رکاوٹ محسوس ہورہا ہے ۔ تب ہم اسلامی تعلیمات کےلیے آزادی کے خواہشمند تھے اور اب ہم -اللہ معاف کرے- اسلامی تعلیمات سے ہی آزادی چاہتے ہیں ۔ اس وقت ہماری منزل خدا کی غلامی میں آکر نفس ، شیطان اور خواہشات نفسانی سمیت ہر دشمن سے آزادی حاصل کرنا تھی اور اس وقت ہم دوبارہ ایک سجدے کو گراں سمجھ کر ہر ایک کے آگے جھکنے کےلیے پر تول رہے ہیں ۔
افسوس ! ہم نے نفس اور خواہشات کی غلامی کو آزادی سمجھ لیا ہے اور ان خواہشات کی پیروی سے اگر ہمیں کوئی روکتا ہے تو پھر وہ ہمارا قریبی عزیز ، بھائی بہن یا والدین میں سے ہی کوئی کیوں نہ ہو ، ہم اسے اس خیرخواہی کا حق نہیں دیتے اور ان کے اس عمل کو اپنی آزادی پر حملہ تصور کرتے ہیں ۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آزادی کے سفر کی ابتدا ہی اس وقت ہوتی ہے جب ہم نفس کے منھ زور گھوڑے پر قابو پالیتے ہیں اور ہمارے دل سے ہر خواہش ، ہر تمنا رخصت ہو جاتی ہے ۔ اس دنیا میں آج تک کسی کی خواہشات کی تکمیل ہوئی ہے اور نہ ہوسکتی ہے ۔ انسان کی لامحدود خواہشات کےلیے یہ زندگی انتہائی محدود ہے ۔ یہ کل کائنات اور اس کا جملہ سازوسامان بھی انسانی خواہشات کی تکمیل کےلیے ناکافی ہے ۔ اسی لیے حکماء آزادی کا حقیقی رستہ یہی بتاتے چلے آئے ہیں کہ انسان تمام خواہشات سے دست بردار ہو جائے ۔
اسلام خالق فطرت کا آخری دین فطرت ہے۔ اس میں جہاں ہر ایک کے حقوق مقرر ہیں وہاں سب پر کچھ فرائض بھی عائد کیےگئے ہیں ۔ ان حقوق و فرائض کی ادائیگی کے توازن میں ہی آزادی اور سکون چھپا ہے ۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق کےلیے تو زور و شور سے مطالبہ کرتے اور صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں لیکن خود پر عائد فرائض کی ادائیگی کی ہمیں کوئی فکر نہیں ہوتی ۔ ایسا کرتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جو ہمارے فرائض ہیں وہ کسی کے حقوق ہیں ۔ جب ہم اپنے فرائض ادا نہیں کریں گے تو دوسروں کے حقوق متاثر ہونگے ۔ نتیجے میں وہ اپنے فرائض جو کہ ہمارے حقوق ہیں ، سے پہلو تہی کرینگے ۔ اس طرح معاشرے میں سب حقوق سے محروم ہوں گے اور اگر ہر فرد و طبقہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں لگ جائے گا تو ہر ایک کے حقوق ادا ہو جائیں گے ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے حقوق تو پورے پورے وصول کر لیتے ہیں لیکن جب فرائض کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو وہ فرائض ہمیں اپنی آزادی کے خلاف پابندی محسوس ہونے لگتے ہیں ۔ ہم سراپا اللہ تعالی کے احسانات میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر زندگی جس کی وجہ سے ہم تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں وہ قدرت کی عطا کردہ ہے ۔ ان تمام نعمتوں کے شکر کے طور پر جب فرائض کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو ہمیں یہ فرائض بوجھ محسوس ہوتے ہیں کیونکہان سے ہماری خواہشات کا خون ہوتا ہے ۔ خدا اور اس کے رسول کے بعد ہم پر سب سے زیادہ احسانات ہمارے والدین کے ہیں ، جو ہمارے دنیا میں آنے کا ظاہری سبب بنتے ہیں اور ہمیں اس وقت سہارا دیتے ہیں جب ہم بالکل بے سہارا ہوتے ہیں۔ یہ والدین ہی ہیں جو اپنے فرائض پوری طرح ادا کرتے ہیں تو ہم بولنے ، چلنے پھرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔ پھر جب انکی تعلیم و تربیت کے بدولت ہم عقل و شعور کی منزلیں طے کرلیتے ہیں تو وہ والدین اور ان کے احکامات ہمیں ناجائز اور ناقابل عمل محسوس ہونے لگتے ہیں ۔
خدا کے نام پر حاصل کی گئی مملکت میں ہمارے یہ رویئے تخلیق پاکستان کی غرض و غایت نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں۔ آج یوم پاکستان کے اس موقع پر ہمیں مقصد حصول پاکستان کو ذہنوں میں تازہ کرنے اور اس مقصد کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے ۔ ہم نے پاکستان حاصل کرلیا لیکن مقصد تخلیق پاکستان کا حصول ابھی باقی ہے اور یہی جہاد اکبر ہے ۔
تبصرہ لکھیے