پہلے انسانی اذہان کی تعمیر، پھر انفراسٹرکچر: پاکستان کے لیے سبق
حقیقی ترقی، انسان کی اخلاقی تربیت کے بغیر ممکن نہیں
میرے حالیہ 12 روزہ یورپ کے دورے کے بعد، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کسی بھی قوم کی اصل ترقی افراد کے کردار، اخلاقیات، اور ذمہ داری کے شعور میں پوشیدہ ہے۔ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو سب سے پہلے عوام میں احساسِ ذمہ داری، قانون کی پاسداری، اور اجتماعی اثاثوں کی حفاظت کا شعور پیدا کرنا ہوگا۔ جب بچے ابتدا ہی سے قوانین کی پابندی، عوامی جگہوں کے ادب، اور اجتماعی ترقی کی اہمیت سیکھیں گے، تبھی وہ بڑے ہو کر ایک بہترین معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں گے۔ ورنہ، جتنے مرضی ترقیاتی منصوبے بنا لیے جائیں، اگر عوام میں ان کی حفاظت اور استعمال کا شعور نہیں ہوگا، تو وہ جلد ہی تباہ ہو جائیں گے۔ پاکستان کو ایک حقیقی ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کی فکری اور اخلاقی تربیت پر کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ اصل ترقی سڑکوں سے نہیں، سوچ سے آتی ہے.
میرے حالیہ یورپ کے دورے میں جرمنی، نیدرلینڈز، بیلجیم، فرانس، ڈنمارک، اور سویڈن کے مختلف شہروں کا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ وہاں کے منظم معاشرے، جدید سہولیات اور شفاف نظام نے یقینی طور پر متاثر کیا، لیکن اصل چیز جو میں نے محسوس کی وہ انسانی تربیت اور اخلاقی ترقی تھی۔ یہ ترقی محض انفراسٹرکچر، سڑکوں، اور پلوں کی تعمیر سے ممکن نہیں ہوئی، بلکہ اس کے پیچھے شہریوں کی اخلاقی تربیت، ایمانداری، اور اجتماعی ذمہ داری کا شعور تھا۔ اگر پاکستان کو حقیقی ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو سب سے پہلے تعلیم، تربیت، اور اخلاقیات پر کام کرنا ہوگا۔
یورپ میں انسانی تربیت کیسے کی جاتی ہے؟
ابتدائی تعلیم میں اخلاقی تربیت اولین ترجیح
یورپ میں بچوں کی تعلیم محض اے بی سی اور ریاضی سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ سب سے پہلے انہیں بنیادی اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں:
• قانون کی پاسداری، عوامی مقامات پر نظم و ضبط، اور دوسروں کے حقوق کا احترام سکھایا جاتا ہے۔
• ٹریفک قوانین، زیبرا کراسنگ کے استعمال، اور پبلک ٹرانسپورٹ میں رویے کی تفصیل سے تربیت دی جاتی ہے۔
• صفائی کا خیال رکھنا، قطار میں کھڑے ہونا، اور پبلک پراپرٹی کو نقصان نہ پہنچانا جیسی عادات بچپن سے ہی بچوں کے ذہن میں بٹھا دی جاتی ہیں۔
• اجتماعی اثاثوں کی حفاظت کی عملی تعلیم دی جاتی ہے، تاکہ بچے سمجھیں کہ ان کا خیال رکھنا قومی ذمہ داری ہے۔
بچوں کی گھریلو تربیت اور والدین کا کردار
یورپ میں بچوں کی ابتدائی تربیت والدین کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے، اور اسکول اس کردار کو مزید مضبوط کرتے ہیں:
• کھانے کے آداب، دوسروں کی مدد کرنا، اور وقت کی پابندی گھروں میں ہی سکھائی جاتی ہے۔
• والدین خود قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تاکہ بچے ان سے سیکھ سکیں۔
• وسائل کے مؤثر استعمال کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ بچے پانی، بجلی اور توانائی کی حفاظت کو اہمیت دیں۔
اسکولوں میں عملی تربیت
یورپ میں تعلیم کتابی علم تک محدود نہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے بچوں کو تیار کیا جاتا ہے:
• صفائی کا شعور بیدار کرنے کے لیے بچوں کو اسکول میں صفائی کا حصہ بنایا جاتا ہے۔
• پودے لگانے اور ان کی دیکھ بھال سکھائی جاتی ہے، تاکہ وہ فطرت اور ماحول کی قدر کرنا سیکھیں۔
• پبلک ٹرانسپورٹ کے اصول، ہنگامی حالات میں رویہ، اور شہری سہولتوں کا درست استعمال اسکول کے نصاب میں شامل کیا جاتا ہے۔
یہ تمام عوامل بچوں کو بڑے ہو کر ذمہ دار اور قانون پسند شہری بنانے میں مدد دیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سبق: اخلاقی تربیت کو تعلیمی نظام کا لازمی حصہ بنایا جائے
پاکستان میں ترقیاتی منصوبے ضرور بنائے جا رہے ہیں، مگر انفراسٹرکچر کی حفاظت اور اس کے پائیدار استعمال کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں ذمہ داری اور اجتماعی شعور پیدا کیا جائے۔
کرنے کے کام کیا ہوں گے؟
1. تعلیمی نصاب میں اخلاقیات اور شہری شعور کو لازمی شامل کیا جائے
• بچوں کو بنیادی اخلاقیات، قوانین کی پاسداری، اور سماجی رویے سکھائے جائیں۔
• انہیں پبلک پراپرٹی، ٹریفک قوانین، اور سماجی ذمہ داریوں کی عملی تربیت دی جائے۔
• ہر اسکول میں شہری شعور اور قومی ذمہ داری کے حوالے سے عملی سرگرمیاں کروائی جائیں۔
2. والدین کی تربیت کی جائے تاکہ وہ بچوں کو قومی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں
• گھروں میں اخلاقی تربیت دی جائے تاکہ بچہ ذمہ دار شہری بنے۔
• والدین کو تربیتی سیشنز میں شامل کیا جائے تاکہ وہ بچوں کو سماجی آداب سکھانے میں فعال کردار ادا کریں۔
3. عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں
•سڑکوں، بسوں، پارکوں، اور عوامی جگہوں پر اخلاقیات کے حوالے سے مہمات چلائی جائیں۔
• میڈیا، سوشل میڈیا، اور تعلیمی ادارے اس مہم میں بھرپور حصہ لیں۔
• ٹی وی اور سوشل میڈیا پر ایسی مہمات چلائی جائیں جو شہری شعور اجاگر کریں اور عوام کو اجتماعی ذمہ داری کا احساس دلائیں۔
4. قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے
• صرف سخت قوانین بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ عوام کو قانون کی اہمیت سمجھانی ہوگی۔
• قانون کی پاسداری کو سماجی فریضہ بنانے کے لیے تعلیمی ادارے اور والدین کلیدی کردار ادا کریں۔
تبصرہ لکھیے