ہوم << فتح مکہ کے نتائج و ثمرات-عبدالجبار سلہری

فتح مکہ کے نتائج و ثمرات-عبدالجبار سلہری

تاریخ انسانی میں کچھ واقعات ایسے ہیں جو اپنے اثرات و نتائج کے اعتبار سے ہمیشہ کے لیے یادگار بن جاتے ہیں۔ فتح مکہ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہے جس نے نہ صرف جزیرۂ عرب بلکہ پوری دنیا میں ایک زبردست انقلاب برپا کر دیا۔ یہ محض ایک فوجی فتح نہ تھی بلکہ یہ روحانی، اخلاقی اور سماجی تبدیلی کی عظیم مثال بھی تھی۔

وہی مکہ جہاں کبھی توحید کی صدا دبانے کی کوشش کی گئی، جہاں نبی کریم ﷺ کو ہر ممکن اذیت دی گئی، جہاں حق کے متوالوں کو ظلم و ستم کی چکی میں پیسا گیا، آج اسی مکہ کی فضائیں تکبیر و تہلیل سے گونج رہی تھیں۔ وہی لوگ جو کل تک اسلام کے خلاف صف آراء تھے، آج فوج در فوج دینِ حق میں داخل ہو رہے تھے۔ سورہ النصر کی آیات "جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے۔اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔ "(النصر: 1-2) اسی حقیقت کو بیان کرتی ہیں کہ اللہ کی نصرت کے ساتھ جب فتح آئی تو لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔

سن 8 ہجری میں جب کفارِ مکہ نے حدیبیہ کے معاہدے کو توڑا تو نبی کریم ﷺ نے فیصلہ کیا کہ مکہ کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ آپ ﷺ نے نہایت حکمت عملی اور تدبر کے ساتھ ایک ایسا لشکر ترتیب دیا جو نہ صرف عددی قوت میں برتر تھا بلکہ روحانی طور پر بھی مضبوط تھا۔ دس ہزار صحابہؓ پر مشتمل یہ لشکر مکہ کی طرف روانہ ہوا، اور بغیر کسی بڑی جنگ کے مکہ فتح ہوگیا۔

جب لشکرِ اسلام مکہ میں داخل ہوا تو نبی کریم ﷺ نے عفو و درگزر کا ایک بے مثال نمونہ پیش کیا۔ وہی لوگ جنہوں نے آپ ﷺ کو اذیتیں دی تھیں، آپ ﷺ کے خلاف سازشیں کی تھیں، آج ان کے سامنے نبی رحمت ﷺ کھڑے تھے اور فرما رہے تھے: یعنی "آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے۔"(یوسف: 92) یہ اعلان سن کر کفار کے دل پگھل گئے اور وہ کلمۂ حق پڑھنے پر مجبور ہوگئے۔

فتح مکہ کے بعد جزیرۂ عرب میں اسلام کا بول بالا ہوگیا اور شرک کا نظام دم توڑ گیا۔ خانہ کعبہ کو بتوں کی نجاست سے پاک کیا گیا اور وہاں صرف اللہ کی توحید کا اعلان ہونے لگا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب نبی کریم ﷺ نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر تمام بتوں کو توڑتے ہوئے "اور فرما دیجیۓ کہ : حق آن پہنچا، اور باطل مٹ گیا، اور یقینا باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے۔"(الاسراء: 81) کی آیت تلاوت کی۔

تاریخ میں عام طور پر جب کوئی فاتح کسی شہر میں داخل ہوتا ہے تو قتل و غارت گری ہوتی ہے، ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، لیکن نبی رحمت ﷺ نے تاریخ کا ایک انوکھا باب رقم کیا۔ آپ ﷺ نے عام معافی کا اعلان کیا، حتیٰ کہ وہ لوگ جو سب سے بڑے دشمن تھے، جیسے ابوسفیان، عکرمہ بن ابی جہل، وحشی اور ہندہ، انہیں بھی معاف کر دیا گیا۔

فتح مکہ کا سب سے بڑا اثر یہ ہوا کہ جزیرۂ عرب کے قبائل جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔ پہلے جو قبائل قریش کی طاقت سے مرعوب ہو کر اسلام قبول نہیں کر رہے تھے، اب وہ کھلے دل سے دائرۂ اسلام میں آ رہے تھے۔ مکہ کی فتح نے عرب میں ایک مضبوط اسلامی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کی۔ جہاں پہلے قبائلی عصبیت اور دشمنیاں عام تھیں، وہاں اسلامی اخوت اور بھائی چارے کا دور شروع ہوا۔ لوگ اپنی ذاتی دشمنیوں کو بھول کر ایک امت میں ڈھل گئے۔

یہ فتح صرف زمین یا شہر فتح کرنے کا نام نہیں تھی بلکہ قلوب و اذہان کی فتح تھی۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی عملی زندگی سے یہ ثابت کر دیا کہ اصل فتح وہی ہوتی ہے جس میں دشمن کا دل بھی جیت لیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ مکہ کے وہ لوگ جو کل تک دشمنی پر آمادہ تھے، آج محبت، عقیدت اور ایمان کے جذبے سے سرشار ہو کر نبی کریم ﷺ کے قدموں میں جھک رہے تھے۔

اسلامی تعلیمات کے مطابق نسلی برتری، قبیلوی غرور، اور مال و دولت کی بنیاد پر تفریق کا خاتمہ ہوا۔ خطبۂ فتح مکہ میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا: (اے لوگو! اللہ نے تم سے جاہلیت کا غرور اور آبا و اجداد پر فخر کرنا ختم کر دیا۔ اب لوگ دو طرح کے ہیں: ایک نیک اور متقی، جو اللہ کے نزدیک معزز ہے، اور دوسرا بدکردار اور شقی، جو اللہ کے نزدیک ذلیل ہے) (مسند احمد)۔

فتح مکہ سے ہمیں سب سے بڑا سبق حاصل ہوتا ہے کہ حقیقی کامیابی طاقت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اخلاق، عدل، حکمت اور صبر کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی فتح، ظاہری جیت سے زیادہ روحانی فتح تھی۔ دنیا نے بہت سے فاتحین دیکھے— سکندر، چنگیز خان، نپولین— لیکن ان کی فتوحات ظلم و جبر کی علامت تھیں، جبکہ نبی کریم ﷺ کی فتح رحمت، محبت اور انسانیت کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔

یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کا ذکر کیا تو خوشی میں جشن منانے یا دنیاوی فخر کا حکم نہیں دیا بلکہ فرمایا: "تو اپنے رب کی تسبیح اور حمد بیان کر اور اس سے استغفار کر، بے شک وہ بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔"(النصر 3) یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ کامیابی کے بعد غرور نہیں بلکہ عاجزی ہونی چاہیے، اور ہر لمحہ اللہ کی طرف رجوع کرنا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ فتح مکہ محض ایک تاریخی واقعہ نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک پیغام ہے کہ حق و صداقت کی راہ پر چلنے والوں کو بالآخر کامیابی نصیب ہوتی ہے، اور یہ کامیابی تبھی حقیقی ہوتی ہے جب اس میں دوسروں کے لیے رحمت، عدل اور محبت کے جذبات شامل ہوں۔