تعلیم کا مادہ (Root Word)علم ہے۔اردو، انگلش اور عربی زبان میں علم(Knowledge) کا معنی جاننا ،آگاہی حاصل کرنا اور واقفیت کے ہیں۔ نسواں کا معنی عورت ہے ۔عربی زبان میں عورت کے لیے نساء کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، چناں چہ یہی سے اردو میں عورت کے لیے نسواں کا لفظ استعمال ہونے لگا۔تعلیم نسواں کا معنی ہے ، عورتوں کی تعلیم۔
حصول علم کی اہمیت
دنیا میں ترقی ، کامیابی اور اوج کمال انہی قوموں نے حاصل کیا ہے، جنہوں نے علم و فکر کے میدان میں کارنمایاں ہائے سرانجام دیے ہیں۔دنیا میں یونان و روم کا غلبہ ہو یا اسلامی ترقی کا بارہ سو سالہ دَوریا موجودہ یورپ کی ترقی ، ان سب کامیابیوں کے پیچھے بہت بڑا محرک علم و فکر کے میدان میں کامیابی حاصل کرنا ہے۔بلکہ اسلام تو ایسا دین ہے جس کا آغاز ہی پہلی وحی میں حصول علم کی رغبت سے ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ”پڑھو اپنے رب کے نام کیساتھ جس نے پیدا کیا۔“(العلق:1)دین اسلام میں علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: طلب العلم فریضَة علَى كل مسلم ”علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے مقاصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ ”اور وہ تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتاہے۔“(البقرۃ:151)اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اہل علم کے درجات کی بلندی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ”تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے اللہ ان کو درجوں میں بلند کرے گا۔“(المجادلۃ:11) پیغمبر ﷺان الفاظ میں اپنے علم میں اضافے کی دعا کیا کرتے تھے: رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا ”اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ایک حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاجو شخص حصول علم کے لیے نکلتا ہے تو کائنات کی ہر چیز اس کے لیے دعائے خیر کرتی ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آقائے دو جہاں ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے نکلا وہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ کے راستے میں جہاد کر رہا ہے ،یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے۔
تعلیم نسواں کی اہمیت
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ عورت کا وجود کائنات کی تکمیل کرتا ہے۔نسل انسانی کے استحکام اور نشونما میں عورت کا بنیادی کردارہے۔کسی بھی معاشرے کی ترقی، خوشحالی اور کامیابی میں عورت کا کردار فراموش نہیں کیاجا سکتا۔اللہ نے عورت کو بیوی، ماں، بہن اور بیٹی کے روپ میں چار درجے دیے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے حقوق و فرائض اور ذمہ داریوں میں ان کے مزاج، صلاحیت اور شخصیت کا لحاظ رکھا ہے۔ اسلام نے خواتین کی تعلیم و تربیت کوزندگی کا لازمی حصہ قرار دیا ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں بے شمار احکامات عورتوں کی تعلیم کے متعلق ہی نازل فرمائے ہیں۔پیغمبر ﷺکے دور نبوت میں خواتین آپ سے اپنے مسائل پوچھتی تھی۔آپ ﷺاپنے وقت کا کچھ حصہ صرف خواتین کی تعلیم و تربیت کے لیے مختص فرماتے تھے۔ایک حدیث میں آپﷺ نےبیٹیوں کی تعلیم و تربیت کو جنت میں اپنے ساتھ کا ذریعہ قرار دیا۔ آپ ﷺ نےارشاد فرمایا: «مَنْ عَالَ جَارِيَتَيْنِ حَتَّى تَبْلُغَا، جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَنَا وَهُوَ» وَضَمَّ أَصَابِعَهُ ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن وہ اور میں اس طرح آئیں گے۔‘‘ اور آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔
عورت کی تعلیم اس اعتبار سے بھی ضروری ہے کہ نسل انسانی کی پرورش اور معاشرتی ترقی میں عورت کا کلیدی کردار ہے۔بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایک تعلیم یافتہ ماں جو کردارادا کر سکتی ہے ،وہ ایک عام عورت نہیں کر سکتی۔تعلیم و تربیت یافتہ عورت ایک تعلیم و تربیت یافتہ نسل اور معاشرے کی ضمانت ہے۔ایک عورت کو تعلیم دینا ایک معاشرے کو تعلیم دینے کے مترادف ہے۔اسی لیے تو نپولین نے کہا تھا کہ آپ مجھے اچھی مائیں دے دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔
خواتین کو اعلیٰ تعلیم دلوانا عصر حاضر کے بنیادی تقاضوں میں سے ہے۔اس کا مثالی طریقہ تو یہی ہے کہ تعلیم نسواں پر مشتمل تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں لیکن موجودہ حکومتیں اور سرکردہ افراد اس کام میں پہلو تہی اختیار کرتے ہیں۔لیکن اس کمی کو پورا کرنے کے لیے تربیت اور گھریلوماحول کو بہتر بناتے ہوئے موجودہ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیز میں بھی تعلیم حاصل کرنا ممکن ہے۔خواتین کو اعلی تعلیم نہ دلواناکسی طور بھی دانشمندی نہیں ہے۔اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تبصرہ لکھیے