اب تک تو غزوۂ بدر کتابوں میں لکھی ایک سنہری داستان ہی لگتی تھی کہ تین سو تیرہ لوگ اپنے وقت کی سپر پاور کے سامنے ڈٹ گئے۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر میدانِ جنگ میں صف آرا ہو گئے۔ ان کی بھی کھیتی باڑیاں ہوں گی، آنکھوں کی ٹھنڈک خاندان تھے، کسی کی بیٹی کی شادی ہونے والی ہوگی، کسی کی بیوی حمل سے ہوگی، کسی کا شیرخوار لاڈلا بچہ "بابا" کہہ کر گردن میں جھول جاتا ہوگا۔ خاندان کی محبت کوئی معمولی چیز نہیں۔ پکی فصلیں، خون پسینے کی کمائی، سب چھوڑ چھاڑ میدانِ جنگ میں آ گئے۔ نہ ڈھال، نہ تلوار، نہ نیزے، نہ گھوڑے، اور دشمن بھی وقت کی نیٹو پاورز۔
قرآنِ کریم میں تذکرۂ غزوات اسی لیے ہے کہ مسلمان اپنی سنہری تاریخ سے جڑے رہیں۔ کتنا خوش نصیب ہے لمحۂ موجود کہ اس نے اپنی آنکھوں سے غزوۂ بدر کی ایک جھلک دیکھ لی۔ غزہ کی پٹی پر چند لاکھ لوگ، جنھوں نے وقت کی سپر پاور کے جبڑے میں ہاتھ ڈال دیے۔ ظالم فلسطین کو دنیا کے نقشے سے مٹانا چاہتے تھے، انہوں نے ساری دنیا کو فلسطین بنا دیا۔ اسماعیل ہانیہ کے اہلِ خانہ کی المناک شہادت کے بعد کوئی سراسیمگی نہیں پھیلی کہ اب کون قیادت کو سنبھالے گا؟ یہاں قیادت بھی کوئی پھولوں کا سیج ہے؟ یحییٰ السنوار قیادت قبول کرتے ہیں اور دنیا کی تاریخ پر منقش ہو جاتے ہیں۔ آج وہ مسلم امہ کے کروڑوں دلوں کی دھڑکن ہیں۔ مائیں اپنے نومولود بچوں کے نام "یحییٰ السنوار" رکھ رہی ہیں۔
سترہ رمضان ہمیں یاد دلانے آیا ہے کہ آج بھی حق و باطل دوبدو ہیں۔ ہمیں کے ایف سی اور میکڈونلڈ کا بائیکاٹ دوبھر لگتا ہے۔ پتا چلا کہ جس دن اسلام آباد میں میکڈونلڈ نے 50 فیصد رعایت دی، رش دیکھنے کے قابل تھا۔ ہمیں صیہونی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، لیکن مقامی چیزوں کا معیار اچھا نہیں، لہٰذا ہم نے دوبارہ انہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اشیاء سے رجوع کر لیا۔
جہاد تو جاری ہے، شکل بدل گئی۔ ہمیں علم ہے کہ دنیا نے 7 اکتوبر کے بعد انگڑائی لی ہے۔ اکنا ریلیف کے پروگرام میں مقرر بتا رہے تھے کہ پچھلے ایک برس میں امریکا میں جتنے لوگ مسلمان ہوئے ہیں، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ ساری دنیا میں لوگ تیزی سے اسلام کی طرف رجوع کر رہے ہیں۔ کچھ دیر قبل بیٹی بتا رہی تھی کہ ہماری مسجد (سڈنی) میں آج کئی غیر مسلم خواتین آئیں کہ ہمیں نماز پڑھنا سکھائیں۔ بڑا روح پرور منظر تھا جب ان کو اسلام کی تعلیمات دی جا رہی تھیں۔
دنیا میں آخری دور تو اسلام کے غلبے کا ہوگا، یہ بشارت دی جا چکی ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اس سعادت کے لیے یہی نو مسلم چن لیے جائیں۔ قرآنِ کریم میں لکھا ہے کہ "اللہ چاہے تو تمہیں بدل کر تم سے اچھے لوگ لے آئے۔" ہم جدی پشتی مسلمان وہیں کے مارے، شکم سے سوچنے کے عادی، "ھل من مزید" کے چکر میں ہی رہ گئے، اور یہ نو مسلم بازی لے گئے۔
یومِ بدر ہم سے پوچھ رہا ہے: "تم نے صرف دیکھا یا جانا بھی کہ مسلمانوں کی نصرت لے کر فرشتے یونہی نہیں اترا کرتے؟" انہوں نے اپنے 50 ہزار پیارے کھو دیے، بستیاں کھنڈر بنوا لیں، مگر اپنے ایمان کی قیمت چکا دی۔ "اہلِ ایمان کو ایمان کی قیمت دینا پڑتی ہے، تب آسمان سے نصرت اترا کرتی ہے۔" اہلِ غزہ نے ہمیں بتایا کہ اہلِ بدر سے انہوں نے یہی سیکھا ہے۔
یومِ بدر خود کو دہرا رہا ہے۔ آج ہم بھی آسمان کی سمت ہاتھ اٹھا کر بے بسی سے یہی التجا کرتے ہیں: "اے اللہ! اگر یہ مٹھی بھر لوگ نہ بچے، تو دنیا میں تیرا دین کیسے غالب ہوگا؟"
تبصرہ لکھیے