اگر آپ قسطنطنیہ کی فتح کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے ہیں، تو کبھی بھی پنوراما ۱۴۵۳میوزیم دیکھے بغیر استنبول نہ چھوڑیں۔
پنوراما کا مطلب ہے منظر کشی ، اور اس میوزیم میں ۲۹ مئی ۱۴۵۳ء کی اس صبح کی اور ان آخری لمحات کی اتنی مکمل منظر کشی کی گئی ہے کہ دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ وہ ان لمحات کا حصہ ہیں، جب سلطان فاتح کے سپاہیوں نے قسطنطنیہ شہر کوفتح کیا تھا۔ انھیں اپنی آنکھوں کے سامنے یہ فتح مکمل ہوتی محسوس ہوتی ہے ۔
53 دن کے محاصرے اور کئی مرتبہ شہر کو فتح کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد سلطان نے 26 مئی کی شام کو قسطنطنیہ کی مغربی فصیل پر فیصلہ کن اور آخری حملہ کیا ۔ منصوبے کے مطابق اس نے تین دن اور رات تک لگاتار فصیل کے صرف ایک ہی کو حصے کو توپوں اور پیادہ سپاہیوں کے ذریعے نشانہ بنایا۔ پہلے دن سلطان کی فوج کے ہراول دستے نے حملہ کیا۔ دوسرے دن تازہ دم انفنڑی آگے آئی اور چوبیس گھنٹے فصیل تک پہنچنے کی کوشش کرتی رہی ۔ تیسرے دن فوج کے خاص دستوں کی باری آئی ۔ لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔
تین دن کی اس لگاتار یلغار کے نتیجے میں بزنطینی فوج دیوار کا دفاع کرتے کرتے تھک چکی تھی۔ ان تین دنوں میں سلطان کی فوج نے پانچ ہزار توپ کے گولوں کے ذریعے تقریباً پچپن ہزار پاؤنڈ بارود فصیل کے اس حصے پر داغا تھا۔ بزنطینی فوج کا سپہ سالار جویانی گستتنیانی Giovanni Giustiniani توپ کا گولہ لگنے سے زخمی ہونے کے بعد کشتی میں بیٹھ کر شہر سے فرار ہوگیا۔ مغرب کی جانب شہر کی تہری فصیلوں میں سے دو فصیلیں ٹوٹ چکی تھیں. فصیلوں کے باہر موجود بیس میٹر چوڑی خندق کو پاٹ دیا گیا تھا۔ لیکن تیسری فصیل ابھی تک ناقابل شکست تھی، اس کے کچھ حصے کو نقصان ضرور پہنچا تھا، لیکن بزنطینی سپاہیوں نے راتوں رات اس کی مرمت کردی تھی ۔
تین دن اور رات تک فصیل پر یہ حملے لگاتار جاری رہے اور اس میں ایک منٹ کا بھی وقفہ نہ آیا ۔ سلطان نہ خود سویا اور نہ اس نے کسی کو سونے دیا۔ آخر کار 29مئی کو فجر کی نماز کے بعد سلطان نے اپنی ترکش کے آخری تیر ینی چری فوج کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ ینی چری فوج کا تازہ دم دستہ حسن باتلی کی قیادت میں شہر کی تیسری فصیل تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔ صبح 6 بجے حسن اپنے 30 جاں نثار سپاہیوں کے ساتھ سینٹ رومانوس کے گیٹ(ایڈرنہ پول گیٹ) والے برج کے قریب اس تیسری اور آخری فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہو گیا۔ حسن فصیل پر چڑھا اور اللّہ اکبر کا نعرہ لگا کر اس نے سلطان کا پرچم فصیل کے اوپر بنے برج پر گاڑ دیا ۔ بزنطینی سپاہیوں نے اس پر تیروں اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، مگر وہ اس پرچم کو اپنے جسم کی آڑ میں چھپائے کھڑا رہا اور شہید ہوگیا. فصیل کے برج پر عثمانی جھنڈا لہراتا دیکھ کر جہاں بزنطینی فوج کے حوصلے پست ہوئے، وہیں سلطان کی فوج کو ایک نیا حوصلہ ملا۔ حسن کے جسم پر زخموں کے 27 نشان تھے، اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی، لیکن اس کا جسم ڈھال بنا پرچم سے لپٹا کھڑا رہا۔ حسن کے سپاہی بھی جھنڈے کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوتے رہے، وہ سب کے سب شہید ہوگئے، لیکن انھوں نے وہ جھنڈا پھر بھی گرنے نہ دیا۔ لاتعداد ینی چری سپاہی فصیل پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے، باقی سپاہی تیسری فصیل کو توڑتے شہر میں داخل ہوگئے۔
یہی وہ جگہ تھی جہاں آخری قیصرروم شہنشاہ قسطنطین یازدہم ڈراگوس کو آخری باردیکھا گیا۔ اس کے بعد وہ کہاں گیا کوئی نہیں جانتا۔ ایک عرصے تک قسطنطنیہ میں رہنے والے عیسائی اس امید کے ساتھ زندہ رہے کہ قسطنطین کو ورجن میری Virgin Mary اپنے ساتھ لے گئی ہے، اور ایک دن وہ ایک بڑی فوج کے ساتھ قسطنطنیہ کو ترکوں کے قبضے سے چھڑانے کے لئے ضرور آئے گا۔ قسطنطنیہ کا پہلا حکمران بھی قسطنطین تھا اور آخری بھی .
پنوراما میوزیم میدان جنگ کے اسی حصے میں بنایا گیا ہے جہاں یہ آخری معرکہ لڑا گیا ۔ میوزیم کی عمارت کے عین سامنے سینٹ رامانوس گیٹ اور اس سے ملحقہ ٹوٹی ہوئی دیوار صاف نظر آتی ہے، جسے مسمار کر کے عثمانی سپاہی شہر میں داخل ہوئے تھے ۔ یہ دیوار اور سینٹ رامانوس گیٹ بھی اب پنوراما میوزیم کا حصہ ہیں، جنھیں محفوظ کر لیا گیا ہے۔ اس گیٹ کو ترک ایڈرنہ پول گیٹ کہتے ہیں۔ اسے ٹوپ کاپی گیٹ (Canon Gate ) بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس گیٹ کے عین سامنے اس مشہور زمانہ توپ Basilica کو نصب کیا گیا تھا، جسے دنیا کی سب سے بڑی توپ سمجھا جاتا تھا۔ اس توپ کو ستر بیل اور گھوڑے مل کر کھینچتے تھے، اور اسے چلانے پر چار سو سپاہی مامور تھے ۔ اس کا ایک گولہ ڈیڑھ ٹن کا ہوتا تھا۔
وہ چوٹی جہاں میوزیم کی عمارت قائم ہے، کبھی اسی جگہ سلطان فاتح کا خیمہ نصب تھا، جہاں وہ اپنے خیمے کے سامنے ساری رات کھڑا ہدایات دیتا رہاتھا۔ وہ پچھلے تین دنوں سے نہیں سویا تھا۔ 29 مئی کا سورج طلوع ہوا تو سلطان کے سپاہی شہر میں داخل ہوگئے تھے۔ سورج نصف النہار پر پہنچا تو اس کی فوج کا قبضہ شہر پر مکمل ہو چکا تھا۔ اطالوی طبیب نکولو باربیرو جو اس دن شہر میں موجود تھا اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے کہ عصر کے وقت وہ اپنے سفید گھوڑے پر سوار ہوکر ایڈرنہ پول گیٹ سے اپنے مصاحبین اور وزراء کے ساتھ فاتحانہ اندازمیں قسطنطنیہ شہر میں داخل ہوکر آیا صوفیہ پہنچا۔ جہاں پہنچ کر وہ اپنے گھوڑے سے اترا، سجدہ شکر بجا لایا، خاک کی مٹھی بھر کر اپنی پگڑی پر ڈالی، آیا صوفیہ میں داخل ہوا اور دو نفل شکرانے کے اداکیے۔ اس نے شہر میں لوٹ مار بند کرنے کا حکم دیا اور شہر کے تمام باشندوں کو مال، جان اور عزت کی امان دے دی۔
پنوراما ۱۴۵۳دنیا کا مکمل ترین پنوراما میوزیم ہے جو تین ہزار مربع میٹر پر بنایا گیا ہے۔ ساری دنیا میں بنائے گئے باقی سارے پنوراما میوزیم یا تو افقی (افق کے متوازی Horizontal) منظر دکھاتے ہیں یا پھر عمودی (Vertical) مناظر کی منظر کشی ہوتی ہے۔ لیکن استنبول کا پنوراما دنیا کا وہ واحد میوزیم ہے جو دونوں افقی اور عمودی مناظر بیک وقت دکھاتا ہے۔ گنبد نما مصنوعی آسمان کے نیچے جس کی نیلی رنگت پر گولہ و بارود کے اٹھنے والے دھوئیں کی سیاہی اور آگ کی لالی غالب نظر آتی ہے۔ دس ہزار تصویروں کے تھری ڈی مناظر کے درمیان کھڑا ناظر اپنے آپ کو میدان جنگ کا حصہ تصور کرتا ہے، جس کی آنکھوں کے سامنے چاروں طرف 360 ڈگری پر جنگ کے مناظر چل رہے ہیں، اللّٰہ اکبر کے نعروں ، ترک فوجی بینڈ مہتار(Mahtar) کی گونج اور سپاہیوں کے شوروغل کی آوازیں کانوں کے پردے پھاڑتی محسوس ہوتی ہیں۔ جنگ کی شدت دیکھنے والے کو مبہوت کردیتی ہے۔ خون اسے اپنی رگوں میں دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
پنوراما میوزیم چار سال کی محنت کے بعد 31 جنوری 2009ء کو عوام کے لیے کھولا گیا۔ ترکی کے صدر طیب اردگان کی ہدایت پر بنائے جانے والے اس میوزیم کا افتتاح استنبول کے مئیر نے کیا۔ آٹھ مصوروں نے ایک دیوار پر دس ہزار سے زائد تصاویر بنائیں۔ میوزیم کی دیوار کے ساتھ مختلف مقامات پر1453ء کی جنگ میں استعمال ہونے والا اصلی اسلحہ، توپیں، تلواریں، گولہ بارود، گھوڑا گاڑیاں اور دیگر اشیاء اس خوبصورتی کے ساتھ رکھی گئی ہیں کہ پنوراما کا ہال اصل میدان جنگ لگتا ہے۔ جب ان تصاویر کو تیز روشنیوں اور پس منظر موسیقی (بیک گراؤنڈ میوزک ) اور شوروغل کے ساتھ ناظر کی آنکھوں کے سامنے سے گزاراجاتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتاہے جیسے وہ بھی اس جنگ میں شامل ہے، اور یہ سب کچھ اس کے آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔
اس میوزیم پر پانچ ملین ڈالر کی لاگت آئی تھی۔ اس کے تین حصے ہیں۔ میوزیم کی پہلی منزل پر پنوراما سے پہلے اور بعد میں سلطان فاتح کی زندگی کے مختلف ادوار کو تصاویر اور بڑی پینٹگز کی صورت میں بڑے ہال اور راہداریوں میں نمایاں کیا گیا ہے۔ میوزیم کی دیوڑھی میں سلطان کا ایک خوبصورت لباس میں ملبوس قد آدم مجسمہ نصب ہے۔ ہال میں جگہ جگہ شوکیسوں کے اندر اس کی ذاتی اشیاء، اس کے بنائے نقشے، اس کی ڈائریاں، اس کا دیوان، اس کی لکھی کتب اور اس سے وابستہ اسلحہ کی نمائش کی گئی ہے۔ ایک شوکیس میں اس زنجیر کا ایک ٹکڑا رکھا گیا ہے جس کے ذریعے رومی گولڈن ہارن کے دھانے کو بند کر دیتے تھے۔ ایسے ہی ایک شوکیس میں وہ رجسٹری بھی رکھی ہے جس کی رو سے اس نے آیاصوفیہ کو اپنی جیب سے ذاتی پیسے ادا کر کے خریدا تھا، اور اسے مسجد میں تبدیل کیا تھا۔ بعد میں یہ تقریباً چھ سو سال تک سلطان فاتح ٹرسٹ کے زیر انتظام رہی۔ ان راہداریوں سے گذر کر آپ اوپر دوسری منزل پر واقع میوزیم کے دوسرے حصے پنوراما میں پہنچتے ہیں۔ میوزیم کا تیسرا حصہ قسطنطنیہ شہر کی دیوار کے اس ٹکڑے پر مشتمل ہے جس کو توڑ کر سلطان کی فوج نے شہر کو فتح کیا تھا. اس دیوار کے درمیان واقع وہ گیٹ بھی اس میوزیم میں شامل ہے جس سے گذر کر سلطان فاتح شہر میں داخل ہوا تھا ۔ قسطنطنیہ شہر کی یہ فصیل درحقیقت اپنی نوعیت کی انتہائی انوکھی اور عجوبہ روزگار فصیل ہے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اسی دیوار کی بدولت یہ شہر ایک ہزار سال تک ناقابل شکست رہا ۔
ہیروڈوٹس کے مطابق 656 قبل مسیح میں یونان کے میگارا شہنشاہ بیزاس Byzas نے اپنی ماں کی یاد میں یہ شہر بسایا تھا اور اس شہر کا نام بزنطین رکھا تھا۔ اس وقت اس شہر کی کوئی فوجی معاشی یا سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ گذرتے وقت کے ساتھ اپنے مخصوص محل وقوع کی بدولت اس کی اہمیت بڑھتی چلی گئی. 306ء میں قسطنطین نے جب رومی سلطنت سے علیحدگی کا فیصلہ کیا تو اس نے اسے اپنا پایہ تخت قرار دے کر اس کا نام نیو روما (New Roma) رکھا، اور یہاں اپنا شاہی محل تعمیر کروایا، جہاں آج کل توپ کاپی محل ہے۔ 11 مئی 330ء کو اس نے اس کا نام بدل کر قسطنطنیہ Constantinople رکھ دیا۔ یہاں سے اس شہر کی اس شاندار تاریخ کا آغاز ہوتا ہے جس نے اسے ایک عظیم الشان شہر اور پوری دنیا کی سیاست کا محور بنا دیا ۔ اقتدار و سیاست کا ہر منبع روم سے قسطنطنیہ منتقل ہوگیا۔ اس شہر نے ترقی کی وہ منازل طے کیں کہ اس دور میں دنیا کا کوئی اور شہر اس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے یہ ایک ہزار سال تک بزنطینی سلطنت کے اقتدار کی علامت رہا، اور پھر 1453ء میں سلطان فاتح کی فتح کے بعد اگلے 500 سال تک سلطنت عثمانیہ کی عظمت وسطوت کا نشان بن کر زندہ رہا ۔
قسطنطنیہ شہر کے تین طرف پانی اور مغرب کی اس جانب خشکی تھی جس طرف یونان، بلقان اور مشرقی یورپ واقع تھا۔ قسطنطین اوّل نے شہر کو محفوظ بنانے کے لیے اس شہر کے گرد ایک بہت مضبوط فصیل تعمیر کروائی۔ اس نے خشکی کی جانب واقع مغربی دیوار پر خاص توجہ دی تھی۔ 391ء میں شہنشاہ تھیوڈوسس اوّل نے اس دیوار کو اور مضبوط بنایا، اور اس میں کئی نئے دروازے بنوائے، جن میں یورپی جانب بنائے گئے گولڈن گیٹ کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ یہ گیٹ بیس میٹر اونچا تھا اور اس پر سونے اور چاندی کا بنا ایک رتھ نصب کیا گیا تھا، جسے چھ گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ 404ء میں شہنشاہ آر کادیوس نے ان دیواروں کے باہر ایک دوسری حفاظتی دیوار تعمیر کروا کر کے اسے دوہرا کر دیا - ان دونوں دیواروں کے درمیان ایک بہت چوڑی خندق تھی۔ 408ء میں آرکادیوس کے انتقال کے بعد جب اس کا بیٹا تھیودیوسس ثانی تخت پر بیٹھا تو اس نے مغرب کی جانب جہاں خشکی تھی، وہاں ان دوہری دیواروں کے اندر ایک تیسری دیوار بھی بنوا دی۔ اس تہرے حفاظتی نظام کو تعمیر ہونے میں تیس سال لگے اور یہ 439ء میں مکمل ہوا۔ ان تین دیواروں کے سب سے باہر ایک 20 میٹر چوڑی اور 7 میٹر گہری خندق تھی جسے بوقت ضرورت پانی سے بھر دیا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے شہر کے جنوب میں کئی ڈیم بنائے گئے تھے۔ اس خندق کے بعد پہلی دیوار تھی جو چار میٹر اونچی اور دو میٹر چوڑی تھی۔اس خندق پر نظر رکھنے کے لیے اس دیوار میں جگہ جگہ برج اور مینار پر بنائے گئے تھے ۔ اس پہلی دیوار کے دو سو میٹر بعد دوسری دیوار تھی جو آٹھ میٹر اونچی اور چھ میٹر چوڑی تھی جس پر کئی گھوڑے اور رتھ بیک وقت دوڑ سکتے تھے۔ دوسری دیوار پر بھی ہر سو میٹر کے فاصلے پر ایک چکور ٹاور تھا جہاں سپاہیوں کا ایک دستہ تعنیات رہتا تھا۔ اس دیوار پر توپیں نصب تھیں، اور دشمن کے ان سپاہیوں پر آگ اور پتھر برسانے اور گرم کھولتے ہوئے پانی کو پھینکنے کا انتظام کیا گیا تھا جو خندق اور پہلی دیوار کو عبور کر لیتے تھے۔ دوسری دیوار کے تقریباً تین سو میٹر بعد اندرشہر کی جانب تیسری اور آخری دفاعی دیوار تھی ۔ یہ دیوار 12 میٹر اونچی اور 6 میٹر چوڑی تھی ۔ اس پر ہر 70میٹر کے بعد ایک ب20 میٹر اونچا اور 10 میٹر چوڑا ہشت پہلو ٹاور تھا ۔ ان برجوں کی تعداد 97 تھی اور انےیں اس طرح بنایا گیا تھاکہ ان سے برسائے جانے والے پتھر اور گولے دوسری اور پہلی دیوار کے میناروں کو متاثر نہیں کرتے تھے۔ حفاظتی فصیلوں کا یہ تہرا نظام 7 کلومیٹر لمبا اور اتنا مضبوط اور پیچیدہ تھا کہ انسانی تاریخ میں آج تک کسی شہر کو محفوظ بنانے کی ایسی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ اسے تھیوڈوسس کی دیواریں کہا جاتا ہے اور اس کا ایک حصہ محفوظ کرکے اسے اس میوزیم کا حصہ بنا دیا گیا ہے ۔
جے بی بری John Bagnell Bury نے اپنی کتاب Cambridge Ancient History میں لکھاہے: Perhaps the most successful and influential city walls ever built – they allowed the city and its emperors to survive and thrive for more than a millennium, against all strategic logic, on the edge of [an] extremely unstable and dangerous world
بحیرہ مارمورا کی جانب سمندر کی موجوں میں طغیانی اور شوریدگی کی وجہ سے حملہ کرنا ممکن نہیں تھا. گولڈن ہارن والی سمت کو وہ حفاظتی کے ذریعے محفوظ بنا لیتے اور چوتھی جانب حفاظتی دیواروں کا یہ نظام اتنا مضبوط اور مکمل تھا کہ اس سمت سے شہر کو فتح کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف تھا. صرف چند ہزار سپاہی اس شہر کے اندر مہنیوں قلعہ بند رہ کر بڑی سے بڑی فوج کا مقابلہ کر سکتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ یہ شہر ایک ہزار سال تھا ناقابل شکست رہا ۔ نہ 626ء میں شاہ ایران خسرو پرویز اسے فتح کر سکا اور نہ ہی قرون اولی کے عرب اس کو مغلوب کرسکے۔ حالانکہ 674ء میں عرب چار سال تک اور 717ء میں دو سال تک اس شہر کا محاصرہ کیے بیٹھے رہےتھے ۔ ترکوں نے بھی تین سو سال میں چھ بار اس کا محاصرہ کیا، لیکن اسے فتح کرنے میں ناکام رہے۔ سلطان فاتح کو بھی اس شہر کی فتح 53 دن کے محاصرے کے بعد نصیب ہوئی۔
پنوراما میوزیم میں ان دیواروں کے محفوظ حصے کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے بعد ہی اس بات پر یقین آتا ہے کہ 21سالہ نوجوان سلطان فاتح نے فوجی تاریخ کا کتنا بڑا کارنامہ سرانجام دیاتھا۔ قسطنطنیہ کی فتح قرون وسطیٰ (Middle Ages ) کی انسانی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ اس کی فتح کے بعد نہ صرف مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان شروع ہونے والی اس 700 سالہ چپقلش کا اختتام ہوا ،جس کا آغاز حضور اکرمﷺے دور میں 630ء کو غزوہ تبوک کے میدان میں ہوا تھا، بلکہ حضور اکرمﷺ کی وہ بشارت بھی پوری ہوئی جس میں آپ نے قسطنطنیہ کی فتح کی خوشخبری سنائی تھی - یہ حدیث آپ کو سینٹ رامانوس کے گیٹ کے باہر دیوار پر چسپاں نظر آتی ہے جس سے گذر کر سلطان فاتح شہر میں داخل ہوا تھا ۔
قسطنطنیہ کی فتح محض ایک شہر پر ایک شہنشاہ کے اقتدار کا خاتمہ اور دوسرے بادشاہ کے اقتدار کا آغاز نہیں تھا۔ بلکہ اس انہونے واقعے کے ساتھ ہی دنیا کی تاریخ کا ایک باب ختم ہوا اور تاریخ کے نئے دور کی ابتدا ہوئی تھی۔ ایک طرف 27 قبلِ مسیح میں قائم ہونے والی رومن امپائر 1480برس تک کسی نہ کسی شکل میں برقرار رہنے کے بعد ہمیشہ کے لیے اپنے انجام کو پہنچی، تو دوسری جانب عثمانیوں نے اپنا نقطۂ عروج کو چھو لیا اور پھر وہ اگلی چار صدیوں تک تین براعظموں، ایشیا، یورپ اور افریقہ اور پانچ سمندروں پر بڑی شان وشوکت سے حکومت کرتے رہے. 1453ء ہی وہ سال ہے جسے تاریخی اعتبار سے قرونِ وسطیٰ (مڈل ایجز) کا اختتام اور جدید دور کا آغاز بھی سمجھا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ فتحِ قسطنطنیہ کو فوجی تاریخ کا اہم ترین سنگِ میل بھی قرار دیا جاتا ہے، کیوںکہ اس جنگ نے ثابت کیا کہ اب بارود کے استعمال اور بڑی توپوں کی گولہ باری کے بعد دفاعی فصیلیں کسی بھی شہر کے تحفظ کے لیے ناکافی ہیں۔ خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور ناقابل شکست کیوں نہ ہوں۔
Wondeful,interesting d