خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اور پولیس پر حملے اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ریاست کی عمل داری کمزور ہو چکی ہے۔ جنوبی اضلاع میں حکومتی رٹ تقریباً ختم ہو چکی ہے، جبکہ عوام میں عدم تحفظ اور بے یقینی کی فضا پھیلتی جا رہی ہے۔
علماء کو نشانہ بنانے کی سازش
مفتی منیر شاکر اور مولانا حامدالحق جیسے جید علما کی شہادت یہ ظاہر کرتی ہے کہ ایک خاص طبقے کو منظم منصوبہ بندی کے تحت نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اس کے پیچھے کون سے عناصر کارفرما ہیں؟ کیا یہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں یا کوئی اور طاقتیں جو اس خطے کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتی ہیں؟ تاریخ گواہ ہے کہ جب حکومتی کمزوری بڑھتی ہے تو شدت پسند گروہ اور جرائم پیشہ عناصر اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیتے ہیں، اور یہی کچھ آج خیبر پختونخوا میں ہوتا نظر آ رہا ہے۔
ریاستی بے بسی اور غیر سنجیدہ قیادت
سب سے زیادہ تشویشناک پہلو یہ ہے کہ عوام کا ریاستی اداروں پر اعتماد متزلزل ہو چکا ہے۔
• صوبائی حکومت کمزور، نااہل اور غیر سنجیدہ قیادت کے ہاتھوں میں ہے۔
• سیاسی جماعتیں اقتدار کے ایوانوں میں اپنے مفادات کے تحفظ تک محدود ہیں۔
• قوم پرست قیادت گومگو کی کیفیت میں مبتلا ہے۔
• عوامی انگلیاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی طرف اٹھ رہی ہیں، لیکن کوئی بھی واضح اور جاندار مؤقف اختیار کرنے کو تیار نہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی ناکامی اور پالیسیوں کی کمزوری
یہ خطہ ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کا مرکز رہا ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں کوئی ایسا رہنما نہیں جو جرات مندانہ فیصلے کرے۔ موجودہ پالیسیوں میں کئی بنیادی کمزوریاں ہیں:
• مبہم اور مشکوک فیصلے
• وقتی مفادات پر مبنی حکمت عملی
• کمزوری، خوف، طمع و لالچ پر مبنی پالیسیاں
اگر ملٹری اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ وہ تنہا اس بحران سے نمٹ سکتی ہے، تو یہ خام خیالی ہے۔ جب تک قومی و سیاسی قیادت یکجا ہو کر جامع اور عملی حکمت عملی نہیں بناتی، حالات مزید بگڑیں گے۔
کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول حکومت، سیاسی و مذہبی قیادت اور ریاستی اداروں کو اخلاص، وحدت اور جرات کے ساتھ کوئی ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دینا ہوگا۔
1. ریاستی رٹ اور قانون کی عملداری بحال کی جائے
• مٹھی بھر دہشت گردوں کے خلاف مؤثر ٹارگیٹڈ کارروائی کی جائے، لیکن کسی بڑے فوجی آپریشن سے گریز کیا جائے۔
• دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے اور ہمہ جہت حکمت عملی بنائی جائے۔
• دہشت گردی کو ہوا دینے والے مالی و نظریاتی سوتے بند کیے جائیں۔
2. آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دی جائے
• وقتی مفادات اور عالمی طاقتوں کے دباؤ پر مبنی پالیسیوں کے بجائے قومی خودمختاری پر مبنی حکمت عملی اختیار کی جائے۔
3. اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور رہے
•عوام کو اپنی قیادت کے انتخاب کا مکمل اختیار دیا جائے تاکہ ایک خودمختار اور عوامی حکومت مضبوط فیصلے لے سکے۔
4. علماء، سیاستدانوں اور عوام کے درمیان اتحاد قائم کیا جائے
•علماء کے قتل کو روکنے کے لیے تمام مذہبی و سیاسی قیادت ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دے۔
•علماء کے خلاف ہونے والی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔
5. قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط کیے جائیں
•پولیس اور سیکیورٹی اداروں کو جدید وسائل اور ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔
•فوج اپنی توجہ سرحدی تحفظ پر مرکوز کرے جبکہ داخلی سیکیورٹی سول اداروں کے سپرد کی جائے۔
•سیاسی و معاشی استحکام کے بغیر داخلی امن ممکن نہیں۔
6. عوامی شعور اور اعتماد بحال کیا جائے
•سماجی سطح پر اقدامات کیے جائیں تاکہ عوام خوف کے حصار سے نکل کر دہشت گردوں کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔
علماء کے درمیان اختلافات: ایک خطرناک رجحان
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خود مذہبی طبقے میں ایسے عناصر موجود ہیں جو کسی مخصوص مکتبِ فکر کے علما کے قتل پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ تعصب، نفرت اور جہالت کی انتہا ہے۔ یہ وہی کھیل ہے جو ماضی میں بھی کھیلا جاتا رہا— آج جو خوشیاں منا رہے ہیں، کل وہی ماتم کرتے نظر آئیں گے۔
فیصلہ قوم کے ہاتھ میں ہے۔
یہ وقت خاموش تماشائی بننے کا نہیں بلکہ اجتماعی طور پر اس فتنے کے خلاف کھڑے ہونے کا ہے۔ اگر بروقت سخت اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران نہ صرف خیبر پختونخوا بلکہ پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔
سوال یہ ہے:
کیا ہم اپنی آنکھیں بند رکھیں گے، یا جرات، حکمت اور استقامت کے ساتھ اس بحران سے نکلنے کی راہ تلاش کریں گے؟
*ایک سنگین سوال*
خیبرپختونخوا کی سرزمین آج قبرستان بن چکی ہے، جہاں ایک طرف دہشت گردی کا طوفان ہے اور دوسری طرف بے گناہ پختونوں کی لاشوں کا انبار لگا ہے۔ یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کون ذمہ دار ہے؟ جب ہم حب الوطنی کا عینک اُتار کر سوچتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ریاست کا اصل فرض عوام کی حفاظت ہے، لیکن جب تک پختونوں کو انسان نہ سمجھا جائے، یہ کام کیسے ممکن ہوگا؟
ہماری سرزمین پر اگر جنگ ہو رہی ہے تو ہمارے لوگ ہی قربانی کا شکار بن رہے ہیں۔ جب فوجی آپریشن ہوتے ہیں تو ہم شہید ہو جاتے ہیں، اور جب جنگ ہو رہی ہے، تو ہم اس کا حصہ بنے ہیں۔ پھر بھی ریاست کیوں ناکام ہو رہی ہے؟
زما په قبر به واښه ولاړ وي
دلته چې امن تر اټکه راځي
دہشت گردی، استحصال، عدم مساوات اور ظلم کا شکار ہمارے پختون بھائی ہیں، اور یہ سب اس لئے کہ ایک مخصوص طبقے کو مارجنلائز کیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں اگر یہ قوم جاگ گئی، تو پھر یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا اور انصاف کا راج ہوگا۔
اگر ہم نے اپنی آواز بلند کی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا، تو نہ کوئی آرمی چیف رہے گا، نہ کوئی سیاست دان، نہ کوئی جاگیردار، نہ کوئی وڈیرا۔ پھر صرف انصاف ہوگا، اور پختونوں کو ان کا حق ملے گا۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں، ورنہ ظلم کا یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
اظہار الدین شعبہ امن و تنازعات