کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے معاشرے میں طاقت کا تصور کس قدر بدل چکا ہے؟ ایک زمانہ تھا جب طاقتدار وہ کہلاتا تھا جس کے پاس کرسی ہو، عہدہ ہو، اختیار ہو — جو حکومتی اداروں کو چلاتا ہو، قانون بناتا ہو، اور فیصلے صادر کرتا ہو۔
لیکن آج؟
آج کا نوجوان اس طاقت کو ویسا نہیں دیکھتا جیسا ہمارے آباؤ اجداد نے دیکھا تھا۔ اب طاقت کا معیار بدل گیا ہے۔ اب طاقت وہ نہیں جس کے پاس قلم ہے، بلکہ وہ ہے جس کے الفاظ لاکھوں دلوں میں گونجتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں کسی سادہ لباس میں ملبوس، کیمرہ ہاتھ میں لیے، ایک عام سا شخص اپنی بات چند لمحوں میں دنیا بھر میں پہنچا دیتا ہے۔ وہ کوئی وزیر نہیں، نہ ہی کوئی رکن اسمبلی، نہ ہی کسی حکومتی پالیسی کا حصہ، مگر اس کی آواز، اس کا انداز، اور اس کی سچائی — دلوں کو چھو جاتی ہے۔ یہی ہے انٹرنیٹ انفلونسر کا اثر — ایک خاموش انقلاب، جو بظاہر سادہ نظر آتا ہے، مگر اندر سے پورے نظام کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتا ہے۔
سیاستدان: اقتدار کا محافظ، مگر جذبات سے کٹا ہوا
ہماری ریاستی تاریخ میں سیاستدان ہمیشہ سے اختیار کی علامت رہا ہے۔ اس کے پاس وہ قلم ہوتا ہے جو قانون کی سطریں رقم کرتا ہے۔ اس کی زبان سے نکلے وعدے، منشور، پالیسیاں اور ترقیاتی منصوبے قوم کی سمت کا تعین کرتے ہیں۔ وہ اسمبلی میں تقریریں کرتا ہے، پریس کانفرنسز میں بیانات دیتا ہے، جلسوں میں نعرے لگواتا ہے۔ مگر آج کا سچ یہ ہے کہ اس کی یہ ساری گھن گرج اکثر خالی خول بن چکی ہے۔ لوگ اب صرف الفاظ سے مطمئن نہیں ہوتے، وہ احساس چاہتے ہیں۔ وہ ایسی زبان سننا چاہتے ہیں جو ان کے دل کی بولی ہو، جو ان کے روزمرہ کے مسائل سے جڑی ہو، جو مصنوعی نہ ہو بلکہ حقیقت سے لبریز ہو۔ بدقسمتی سے بیشتر سیاستدان آج بھی اسی پرانے بیانیے میں الجھے ہوئے ہیں۔ وہ اب بھی فائلوں کے درمیان، سرکاری اصطلاحات میں، اور روایتی انداز میں اپنی بات کہتے ہیں۔ جبکہ آج کا شہری چاہتا ہے کہ اس سے سیدھی، سادہ اور سچائی پر مبنی گفتگو کی جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے مسائل کو اس کی اپنی زبان میں سنا جائے، نہ کہ محض تقریروں اور وعدوں میں دبایا جائے۔
انفلونسرز: آواز کا سفر، اثر کی طاقت
انٹرنیٹ انفلونسرز اس خلا کو پُر کر رہے ہیں جو سیاستدان اور عوام کے درمیان پیدا ہو چکا ہے۔ وہ سادہ انداز میں بات کرتے ہیں، ان کی گفتگو میں زندگی ہوتی ہے، اور وہ وہی کچھ کہتے ہیں جو عوام سوچتی ہے لیکن بول نہیں پاتی۔ کسی یوٹیوبر کی ایک ویڈیو میں اگر پانی کی قلت کا مسئلہ اٹھتا ہے، تو وہ محض مسئلہ بیان نہیں کرتا بلکہ جذبات جگاتا ہے۔ کسی سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ کی ایک پوسٹ اگر مہنگائی پر ہو، تو وہ صرف اعداد و شمار نہیں دکھاتا بلکہ ایک ماں کی آنکھوں میں جھلکتی پریشانی کو تصویر بنا کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام ان پر یقین کرتی ہے۔ ان کی بات سنتی ہے، ان سے جڑتی ہے، اور ان کے بیانیے کو اپنا بیانیہ بنا لیتی ہے۔
اثر کی اصل بنیاد: جذبات سے جڑی زبان
اگر آپ غور کریں، تو سیاستدان کی زبان اور انفلونسر کی زبان میں سب سے بڑا فرق جذبات کا ہے۔ سیاستدان اکثر 'معاشی اصلاحات' کی بات کرتا ہے، انفلونسر 'روٹی کے سوال' کی۔ سیاستدان 'تعلیمی بجٹ' کی بات کرتا ہے، انفلونسر 'سرکاری اسکول کی ٹوٹی ہوئی چھت' کی۔ سیاستدان 'روزگار کے مواقع' پر تقریر کرتا ہے، انفلونسر 'بیروزگار نوجوان کی آنکھوں کی نمی' پر بات کرتا ہے۔ یہی وہ فرق ہے جو آج اثر اور اختیار کو دو مختلف سمتوں میں لے جا رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں اختیار ہے، مگر دلوں کی دنیا میں اثر انفلونسرز کا ہے۔
سیاست کا بدلتا چہرہ
اب خود سیاستدان بھی اس بدلتے منظرنامے کو محسوس کر چکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہو چکا ہے کہ اگر وہ صرف اسمبلی میں تقریریں کرتے رہے تو عوام ان سے کٹتی جائے گی۔ اسی لیے اب وہ بھی سوشل میڈیا کا سہارا لے رہے ہیں، اپنی بات کو عوامی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ سیاستدان خود بھی وی لاگنگ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ انسٹاگرام لائیو سیشنز میں عوام سے جڑتے ہیں۔ یہ تبدیلی خود ایک نئی سیاست کی علامت ہے۔ اب کامیاب وہی ہوگا جو دل کی زبان بولے گا، چاہے وہ سیاستدان ہو یا انفلونسر۔
کیا انفلونسرز سیاست کا مستقبل ہیں؟
یہ سوال اکثر ذہن میں آتا ہے کہ کیا انفلونسرز واقعی سیاستدانوں کا متبادل بن سکتے ہیں؟ ظاہری طور پر تو شاید نہیں — کیونکہ ریاستی نظام کو چلانے کے لیے تجربہ، قانونی معلومات اور ادارہ جاتی شعور ضروری ہے۔ لیکن اگر قیادت صرف کرسی کا نام نہ ہو، بلکہ عوامی احساسات کی نمائندگی کا نام ہو، تو انفلونسرز آج کے حقیقی لیڈر ہیں۔
وہ نوجوان جو صرف ایک کیمرے اور ایک سچائی کے جذبے سے اپنی بات کہتا ہے، وہ قوم کی نبض پر ہاتھ رکھتا ہے۔ وہ معاشرے کے زخم دیکھتا ہے، ان پر مرہم رکھتا ہے، اور عوام کو شعور بخشتا ہے۔ ایسے لوگ وقتی سیاستدان نہیں ہوتے، بلکہ مستقبل کے معمار ہوتے ہیں۔
اختتامیہ: اختیار وقتی ہوتا ہے، اثر دائمی
آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اختیار کی بنیاد کرسی ہو سکتی ہے، مگر اثر کی بنیاد ہمیشہ دل ہوتے ہیں۔ اگر ایک سیاستدان لاکھوں کے جلسے کر لے مگر لوگوں کے دلوں تک نہ پہنچ سکے، تو وہ کبھی حقیقی لیڈر نہیں بن سکتا۔ اور اگر ایک انفلونسر بغیر کسی عہدے کے دلوں میں جگہ بنا لے، تو وہ قوم کی آواز بن جاتا ہے۔ ہمیں اب اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم صرف وہ سن رہے ہیں جو ہمیں سنایا جا رہا ہے، یا وہ جو حقیقتاً ہمارے جذبات کی ترجمانی کر رہا ہے۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاست کی تعریف بدل دی جائے۔ کیونکہ قوموں کی قیادت صرف کرسی سے نہیں ہوتی — دل سے ہوتی ہے۔
تبصرہ لکھیے