ہوم << ریاض کی شام، پاکستان کے نام - حمزہ عباس

ریاض کی شام، پاکستان کے نام - حمزہ عباس

سعودی عرب کے دل، ریاض میں ایک ایسی شام دیکھنے کو ملی جس نے ہزاروں میل دور بسنے والے پاکستانیوں کو وطن سے جوڑنے کا نیا موقع فراہم کیا۔ "فرینڈز آف ریاض" کی جانب سے منعقدہ یہ تقریب رسمی لحاظ سے تو مختصر تھی، مگر جذبات اور پیغام رسانی کے اعتبار سے بہت بڑی۔ اس نشست نے نہ صرف کمیونٹی کو قریب لانے میں کردار ادا کیا بلکہ ہمیں یہ باور کرایا کہ وطن سے فاصلہ، دلوں کی قربت میں حائل نہیں ہو سکتا۔

تقریب کی صدارت پاکستان کی معروف سیاسی شخصیت، سابق امیر جماعت اسلامی و سینیٹر سراج الحق نے کی۔ وہ محض ایک سیاستدان نہیں بلکہ پاکستان کے لیے فکر رکھنے والے ان چند افراد میں شامل ہیں جو قوم کو صرف سیاست کی نظر سے نہیں، بلکہ ایک مشن کے طور پر دیکھتے ہیں۔

سراج الحق نے اپنے خطاب میں بڑے مدلل اور سادہ انداز میں پاکستانی قوم کی موجودہ صورتحال، چیلنجز اور امیدوں پر بات کی۔ انہوں نے زور دیا کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے، اور اس کی اصل طاقت اس کے عوام میں چھپی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا:

"اگر ہم چاہیں تو پاکستان صرف جغرافیائی لحاظ سے ہی نہیں، بلکہ فکری، تہذیبی اور معاشی اعتبار سے دنیا میں اپنا لوہا منوا سکتا ہے۔ مگر اس کے لیے دیانتدار قیادت، متحد عوام اور بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کی عملی شمولیت ناگزیر ہے۔"

سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانیوں کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ افراد پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ وہ نہ صرف زرمبادلہ بھیجتے ہیں بلکہ پاکستان کا مثبت چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کی محنت اور دیانت کو سراج الحق نے خراج تحسین پیش کیا۔

تقریب میں شریک ہونے والے شرکاء میں مجلس پاکستان یوتھ فورم کے سرپرست سید ثاقب زبیر، صدر مجلس پاکستان رانا عبدالروف، جنرل سیکریٹری رانا عمر فاروق، یوتھ فورم کے محمد ابراہیم جٹ، توصیف احمد، عبدالرحمن فیض، سید بادشاہ، سکندر وردگ، مکرم خان اور دیگر فعال افراد نے شرکت کی۔

"فرینڈز آف ریاض" کے منتظمین جن میں محمد وقاص، رانا عظیم، حسیب گوندل، عمران اعوان، کامران اشرف اور ہماری بھی ذمہ داری لگی تھی،مہمانوں کا پرتپاک استقبال، ماحول کی سادگی، اور خلوص بھرا انداز اس تقریب کی خاص پہچان بن گیا۔

یہ محفل اگرچہ مختصر تھی، لیکن اس میں جو باتیں ہوئیں، جو رشتے جڑے، اور جو پیغام دیا گیا، وہ دیرپا اثرات چھوڑنے والا تھا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ "پاکستان اب مایوسی سے نکل کر ایک روشن دور میں داخل ہو رہا ہے"۔ انہوں نے یہ یقین دلایا کہ اب قوم کو صرف ناامیدی نہیں بلکہ عملی تبدیلی کی طرف بڑھنا ہے، اور اس میں ہر پاکستانی کا کردار اہم ہے۔

تقریب کے دوران نوجوانوں کی شرکت نے خاص طور پر خوشی دی۔ اکثر اوقات اوورسیز کمیونٹی کے نوجوان اپنے ثقافتی اور قومی رشتوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، لیکن اس تقریب میں نوجوانوں کی موجودگی اور ان کا جوش و خروش اس بات کی دلیل تھا کہ یہ نسل اپنے تشخص سے جڑی ہوئی ہے، اور اگر صحیح رہنمائی ملے تو یہ دنیا میں پاکستان کا مثبت کردار مزید اجاگر کر سکتے ہیں۔

تقریب میں سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات پر بھی بات ہوئی۔ سراج الحق نے دونوں ممالک کے درمیان دیرینہ دوستانہ رشتوں کو سراہا اور کہا کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ برادرانہ رویہ رکھا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان تعلقات کو صرف حکومتوں کی سطح تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ عوامی سطح پر بھی بھائی چارے، تعاون اور محبت کو فروغ دینا چاہیے۔

پی آئی اے ریاض ریجن کے منیجر محمد بلال احمد نے بھی "فرینڈز آف ریاض" کی تقریب میں شرکت کی. محمد بلال احمد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "پی آئی اے صرف ایک ایئر لائن نہیں، بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے دلوں میں وطن سے جڑے رہنے کی ایک مضبوط ڈور ہے۔ ہم ہمیشہ اپنے ہم وطنوں کی سہولت کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور کمیونٹی کے ساتھ رابطے کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ محمد بلال احمد کا مزید کہنا تھا کہ پی آئی اے نے سال 2024 میں 400 سے زائد پاکستانیوں کے جسد خاکی کوپاکستان پہنچایا جو سعودی عرب میں محنت مزدوری کرتے ہوئے زندگی کی بازی ہار بیٹھے جس کا ایک ریال بھی چارج نہیں کیا گیاکیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو مزدور پاکستان سے روزگار کے سلسلے میں سعودی عرب آتے ہیں اپنے خاندان کا پیٹ پالتے ہیں اور اپنی ریمِٹنس سے پاکستان کی معیشت میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ان کا یہ حق ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پی آئی آے اپنے ان پاکستانی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہو جائے۔

یہ تقریب ریاض میں گوجرانوالہ کے کھابوں کا مشہور ریسٹورنٹ لائٹ چلی میں منعقد ہوئی، جن کے کھانوں نے پاکستانی ذائقے سے تقریب کو مزید خوبصورت بنا دیا. ایسی تقریبات نہ صرف ہمارے دلوں کو جوڑتی ہیں بلکہ ہمیں احساس دلاتی ہیں کہ ہم پاکستانی ہونے کے ناطے ایک خاندان کا حصہ ہیں۔ چاہے ہم ریاض میں ہوں، لندن میں، ٹورنٹو میں یا لاہور میں — ہماری شناخت، ہمارے خواب، اور ہمارے مقاصد ایک ہیں۔ آخر میں، تمام شرکاءنے ایک ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان کی کامیابی، سلامتی اور خوشحالی کے لیے دعا کی۔