لیون ٹراٹسکی نے معاشی بحران سے جنم لینے والے سماجی انتشار کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’زندگی اور سیاست کسی احسان مندی یا شکر گزاری کو نہیں مانتی۔ ‘‘ یہ چھوٹی سی بات اگر سمجھ آجائے تو لوگوں کے ذہنی، روحانی اور گھریلو مسائل کسی حد تک حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن تلخ سچائی کو لوگ کم ہی تسلیم کرتے ہیں، بیشتر گفتگو شکوے شکایت اور غیبت پر ہی مبنی ہوتی ہے. سوچ کی گراوٹ، رشتوں میں مادہ پرستی کی ملاوٹ اور نفسیات کی تنگ نظری سماجی بیماریوں سے زیادہ ایک بیمار معاشرے کی علامات ہیں۔ اصل بیماری زر کی ہوس پر مبنی سماجی و معاشی نظام ہے جس میں مقابلہ بازی، حسد، غیبت اور منافقت کی اقدار ناگزیر طور پر جنم لیتی ہیں۔
پاکستان میں تقریبا 8 سے 9 فیصد لڑکیاں اور لڑکے گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں، ان میں سے 3 فیصد اپنی شادی کےکچھ عرصے بعد اپنے گھر لوٹ آتے ہیں۔ گھر سے بھاگنے کا رجحان سب سے زیادہ 14 سے 20 سال کے نوجوانوں میں دیکھا گیاہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ 5 ملین سے زائد نوجوان گھر سے بھاگ کر شادی کرتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا وجوہات ہو سکتی ہیں جن کی بنا پر نوجوانوں ایک بڑی تعداد اپنے والدین سے بغاوت کر کے اپنی نئی زندگی کی شروعات کرتی ہے؟ وہ تین فیصد نوجوان لڑکیاں جو گھر واپس آ جاتی ہیں، وہ کیوں لوٹ کر آتی ہیں؟ اور واپسی پر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟
سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ نوجوان لڑکیوں کے پارٹنر ان کے ساتھ بے وفائی کر جاتے ہیں یا انھیں اپنے اس جذباتی اور لا ابالی پن میں کیے ہوئے فیصلے پر شرمندگی ہوتی ہے، اور وہ واپس آ کر اپنی زندگی اپنے والدین کے کہنے کے مطابق بسر کرنا چاہتی ہیں ۔ اگر تو والدین نرم دل ہوں تو انھیں قبول کر لیتے ہیں، اور اگر والدین سخت مزاج ہوں تو انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں، اور ان کی پروا کیے بغیر بدنامی اور عزت کے خوف سے اپنے گھر میں رکھنے سے انکار کر دیتے ہیں۔
ایک دوسری انتہائی ظالمانہ صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسی لڑکیوں کے بھائی، عزیز و اقارب اسے اپنی عزت اور غیرت کا مسئلہ بنا کر قتل کر دیتےہیں۔اسی طرح بہت سی لڑکیاں اپنے چاہنے والوں کے ساتھ بھاگیں، مگر کچھ ہی عرصے بعد وہ اپنے عاشق کی بے اعتنائی اور رویے سے دلبرداشتہ ہو کر اپنے ماں باپ کے گھر گئیں مگر انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور وہ رُلتی رُلاتی بردہ فروشوں کے ہاتھ لگ گئیں، جنھوں نے ان لڑکیوں کو بالا خانے کی زینت بنا دیا، اور وہ عرصے سے اپنا جسم بیچ رہی ہیں۔ انھیں دیکھ کر اور ان کے بارے میں سن کر دل خون کے آنسو روتاہے۔
جو لڑکیاں گھر سے بھاگ کر شادی کرتی ہیں، ان کے حوالے سے بعض لوگوں کی راۓ کے مطابق کچھ کیسز میں گھر کا ماحول بچی کے لیے سازگار نہیں ہوتا ،کہیں والدین خاص طور پر والدہ کی گھر اور بچیوں کی طرف سے لاپرواہی،بچی کے ساتھ ظالمانہ رویہ ہوتا ہے. ایک وجہ ڈرامے بھی ہیں. کم عمر بچیاں ڈراموں کا بہت زیادہ اثر لیتی ہیں، کوئی نہ کوئی ان کو پسند آ جاتا ہے ، مگر نہ ان کی عمر ہوتی ہے، اور نہ ہی والدین کی پسند کے مطابق ہوتا ہے. انھیں لگتا ہے کہ والدین کبھی ایسا ہونے نہیں دیں گے، تو وہ گھر سے زیورات اور نقدی لے کر اپنے انجام سے بےخبر گھر سےنکل جاتی ہیں.
جو کچھ دعا زہرہ کے کیس میں بتدریج سامنے آ رہا ہے ، اس میں سے کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ آئے دن اب ایسے کیس سامنے آتے ہیں، اخبار میں خبر چھپتی ہے کہ فلاں گاؤں میں ایک گھر پہ چار آٹھ لوگوں نے حملہ کر کے گھر کی تیرہ چودہ سال کی بیٹی کو اغوا کر لیا، پولیس نے کیس درج کرنے سے انکار کر دیا. کہا یہ جا رہا ہے کہ لڑکی اپنی پسند سے شادی کے لیے نکلی ہے اور یہ کہ بچی کم عمر ہے وغیرہ وغیرہ۔ بازیاب ہونے کے بعد اکثر وہ لڑکی بیس بائیس سال کی نکلتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کو دارالامان بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں بھی ان کے ساتھ برے سلوک کی خبریں آتی ہیں.
لیکن کیا ایسی لڑکیاں واقعی گھر کے حالات سے تنگ آ کر ہی نکلی ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ جس کے لیے نکلتی ہیں، وہ واقعی کوئی ہیرو ہی ہوتا ہے، جو دنیا کے سرد و گرم سے اسے نکال لے جائے گا لیکن اس نے وعدے یہی کیے ہوتے ہیں۔ جو صورتحال ہے، اسے دیکھیں تو عشق ، محبت، سیرت، صورت اور لو میرج‘‘ اور ’’ارینج میرج‘‘ کی اصطلاحات بھی بے معنی ہوگئی ہیں، کیونکہ شادی والدین طے کریں یا لڑکےلڑکی کی اپنی مرضی سے شادی ہو، فیصلہ کن کردار ’’دولت‘‘ اور ’’کیرئیر‘‘ کا ہی ہوتا ہے۔ ’’کردار‘‘ کی خرابی اور سماجی ساکھ کا ازالہ بھی پیسہ بخوبی کردیتا ہے۔ سوچ کی اتنی گراوٹ، رشتوں میں مادہ پرستی کی ملاوٹ اور نفسیات کی تنگ نظری سماجی بیماریوں سے زیادہ ایک بیمار معاشرے کی علامات ہیں۔ اصل بیماری زر کی ہوس پر مبنی سماجی و معاشی نظام ہے ۔ آج مشترکہ خاندانی نظام ختم ہونے سے سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ لڑکیوں کی شادی سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔ یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں لڑکیوں کے رشتے نہ ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے، اس کی ذمے داری لڑکی کے والدین پر عائد ہوتی ہے، لیکن اس بات پر عموماً غور نہیں کیا جاتا .
ہم یہ نہیں کہتے کہ محبت نہ کریں. محبت کریں، شادی بھی کریں اور نباہ بھی کریں. بیچ راستے میں کسی کو نہ رولیں. صدیاں گزر گئیں، دنیا نے اتنی ترقی کر لی، انسان سیاروں پر پہنچ گیا لیکن ہمارے لوگ ابھی بھی تاریک عہد کے پرانے رسم و رواج کے پابند ہیں۔ شادی بیاہ کے معاملات میں 80 فیصد والدین خصوصاً والدہ کا وہی رویہ ہے جو پہلے تھا۔ کسی کا کنبہ بڑا ہے، چھڑا چھانٹ چاہیے، کسی کا رنگ کالا ہے، کسی کا قد چھوٹا ہے، کسی کی جاب اچھی نہیں ہے۔ اس طرح وقت ریت کی طرح پھسلتا جاتا ہے، تب دو رویے سامنے آتے ہیں، ایک تو یہ کہ پھر جو بھی رشتہ آتا ہے وہاں بیٹی کو بیاہ دیا جاتا ہے، اور دوسرا یہ کہ لڑکیاں خود اپنا رشتہ تلاش کرنے نکل پڑتی ہیں، نتیجتاً خرابیاں پپد ا ہوتی ہیں۔یقین نہ آئے تو ادھر ادھر نظریں دوڑائیے، اس بات کا یقین آجائے گا۔ ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘ اور ’’ناک کٹ جائے گی‘‘ جیسے جملوں نے بے شمار لڑکیوں کی زندگیاں خراب کی ہیں، ان کے بالوں میں چاندی آ گئی اور وہ بڑھاپے کی طرف گامزن ہیں۔ ان ہی خرافات کی وجہ سے اخلاقی گراوٹ کے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، لڑکیاں گھروں سے بھاگ بھی رہی ہیں، گھر ٹوٹ بھی رہے ہیں اور ہماری تہذیب کا جنازہ نکل رہا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے تفریحی مقامات، ہوٹل، پیزا شاپس، مخلوط تعلیمی نظام، موبائل فون، انٹر نیٹ اور ٹی وی وغیرہ پر رومانی ڈرامے اورفلمیں ہماری اخلاقیات مطہرہ اور انسانبیت کا جنازہ نکال رہی ہیں۔ اس پر مزید ستم یہ ہے کہ اگر خواتین محبت کا جرم کر بیٹھیں تو انھیں تشدد یہاں تک کہ موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ہماری معاشرتی اقدار اور معاشرتی اصول خصوصاً لڑکی کی طرف سے ایسا اقدام فطری حیا اور سماجی روایت و اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے؛ اس لیے اس کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اکثر والدین بھی میڈیا کے ذریعے فروغ پانے والے مغربی کلچر سے اس قدر متاثر ہو چکے کہ لڑکوں لڑکیوں کی دوستیوں کو بُرا نہیں جانتے، چھوٹے چھوٹے بچوں کو موبائل فون پکڑا دیے گئے ہیں جس کے ذریعے وہ نہ صرف کسی بھی قسم کا نامناسب مواد دیکھ سکتے ہیں بلکہ آن لائن دوستیاں بھی کرتے ہیں، جس سے خرابی پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ چھوٹے بچے بچیاں فلمی انداز میں لو افئیرچلا کر گھر سے بھاگ کر شادیاں تک کر لیتے ہیں۔
والدین اور معاشرے سے چھپ کر نکاح کرنا چونکہ مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، نیز عموماً پسند کی شادی میں وقتی جذبات محرک بنتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ان جذبات اور پسندیدگی میں کمی آنے لگتی ہے، نتیجتاایسی شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں اورعلیحدگی کی نوبت آجاتی ہے. جبکہ اس کے مقابلے میں خاندانوں اور رشتوں کی جانچ پڑتال کا تجربہ رکھنے والے والدین اورخاندان کے بزرگوں کے کرائے ہوئے رشتے زیادہ پائیدار ثابت ہوتے ہیں، بالعموم شریف گھرانوں کا یہی طریق کارہے، ایسے رشتوں میں وقتی ناپسندیدگی عموماً گہری پسند میں بدل جایا کرتی ہے. اس لیے بچوں اوربچیوں کوچاہیے کہ وہ اپنے ذمہ کوئی بوجھ اٹھانےکے بجائے اپنےبڑوں پراعتماد کریں، اور ان کی رضامندی کے بغیر کوئی قدم نہ اٹھائیں۔اگر عاقل بالغ لڑکا یا لڑکی اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر یا خفیہ طور پرگھر سے بھاگ کر شادی کر لیں تو یہ ہماری اقدار کے منافی ہے۔ اسی طرح والدین کو بھی اپنے بچوں کی پسند کا خیال کرنا بہت ضروری ہے۔
تبصرہ لکھیے