ہوم << کوے انارکسٹ ہوتے ہیں - جنید الدین

کوے انارکسٹ ہوتے ہیں - جنید الدین

مقررہ وقت کو گزرے صبح سے دوپہر ہو گئی تھی مگر اس کا کہیں کوئی نام و نشان نہ تھا جس کے انتظار میں یہ وقت ہو چلا تھا. اس خاص تقریب میں شامل ہو نے کے لیے دور دور سے پرندے جمع تھے. یخ بستہ پہاڑوں سے تپتے صحراؤں تک اور حبس زدہ جنگلات سے باغوں چمنستانوں تک کچھ ایک دوسرے کو جانتے تھے، بہت سوں نے ایک دوسرے کے نام تو سنے تھے مگر دیکھا نہ تھا اور کئی نے تو ایک دوسرے کے بارے میں سنا تک نہ تھا. بالآخر حاضرین کی بے چینی کو دیکھتے ہوئے ہدہد نے باز کو آخری دفعہ پتہ کر کے آنے کو کہا کہ اتنا بلند اڑے کہ جتنا وہ اڑ سکتا ہے اور دیکھے کہ آنے والے کے کوئی آثار ہیں یا کارروائی کا باقاعدہ آغاز کیا جائے. تھوڑی دیر بعد باز کو مایوس لوٹتے دیکھ کر سب کو یقین ہو گیا کہ انہیں مزید انتظار کیے بغیر پروگرام شروع کرنا ہوگا.
یہ خاص تقریب ہدہد کی زیر صدارت تھی جس کا مقصدجانوروں اور انسانوں کی طرح پرندوں کا بھی ایک بادشاہ چننا تھا. اور جس کا انتظار کیا جا رہا تھا وہ کوے تھے. تمام پرندوں کو اس کی دعوت دی گئی تھی مگر جب کووں کو اس بارے میں بتایا گیا تو انہوں نے صاف انکار کر دیا، یہ کہتے ہوئے کہ وہ جانتے تھے کہ زندگی کس طرح گزارنی ہے ایسے کہ بس اس کو گزارو، انہوں نے مثالیں دیں کہ کبھی کسی پرندے نے انہیں لڑتے، قتل ہوتے یا قیدی بنتے دیکھا تھا. بہت اصرار پر سب سے بوڑھے کوے نے ہاں کر دی مگر اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ نہ پہنچ سکا تو اس کا انتظار کیے بغیر ہی تقریب شروع کر دی جائے.
منطق الطیر سے اخذ کردہ یہ جھوٹا واقعہ خواجہ عطار کے مشاہدہ، مفروضہ اور علم پر مہر صداقت ثبت کرتا ہے کہ کوے انارکسٹ ہوتے ہیں. ہدہد سے فاختہ، باز سے بطخ اور بلبل سے کوئل تک پرندوں کی موجودگی اور صرف کووں کی اس دلیل کے ساتھ غیرموجودگی کہ کسی بادشاہ اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دستور کے بغیر بھی جیا جا سکتا ہے میرے مفروضہ کی تائید کرتے ہیں کہ کوے انارکسٹ ہوتے ہیں.
وہ کوا ایتھنز کی اکیڈمی یا سپارٹا کے سکول کا نہیں پڑھا تھا جس کو پیاس لگی اور برتن گہرا ہونے کی وجہ سے اس نے پانی میں کنکر پھینکا کہ اس سے پانی اوپر آجائے گا اور فزکس کے اصول کو استعمال کرنے والا گویا وہ پہلا سائنسدان تھا یا پہلا سائنسدان پرندہ اور نہ ہی وہ کسی مذہب کا پیروکار تھا کہ جس نے انسان کو سکھایا کہ مردہ کو جلایا جاتا ہے یا دفنایا جاتا ہے. انسان کو خوش کرنے کے لیے بھی انہوں نے کوئی فن نہیں سیکھا اور کیوں سیکھیں؟ کیا وہ اس سے خود کو کم سمجھتے ہیں؟
وہ کبھی کوئل کی طرح گویے نہیں بنے نہ کبوتر کی طرح ڈاکیے اور نہ کبھی طوطوں کی طرح الٹی سیدھی باتیں رٹی ہیں، اور نہ بلبل کی طرح فریب عشق میں مبتلا ہوئے. اور آخر کیوں میری ماں انہیں کھتری کہتی ہے اس کے باوجود کہ اس نے کبھی کوئی ہندو نہیں دیکھا. اس لیے کہ وہ بطور ایک عام انسان کھتری کو خود سے زیادہ چالاک سمجھتی ہے.
وہ خود کو انسان جانور یا پرندہ کسی کے ساتھ نہیں جوڑتے. وہ ویج کھاتے ہیں اور نان ویج بھی. ان کے نزدیک بقا ہی سب سے بڑا نظریہ حیات ہے. وہ گوشت بھی کھاتے ہیں اور بھنڈی اور کدو بھی، بسکٹ بھی اور باجرہ بھی اور میں نے انہیں سموسہ بھی کھاتے دیکھا ہے.
وہ ظالم اور مظلوم بھی نہیں کہلواتے کہ وہ انسان کے ہاتھ سے اشیاء چھین لیتے ہیں تو خراب اشیاء چٹ کر کے حساب چکتا بھی کر دیتے ہیں. اپنا حصہ کسی کو نہیں دیتے مگر کسی کمزور پرندے پر جھپٹتے بھی نہیں.
کوے مشیر نہیں ہوتے مگر چالاک ہیں.
مذہبی نہیں مگر مذہب سے واقف ہیں.
فزکس نہیں جانتے مگر سائنسدان ہیں.
جانتے ہیں کہ کیا کھانا ہے لیکن حلال حرام میں نہیں پڑتے.
کبھی لڑ کر نہیں مرتے، نہ بھوک سے نہ پیاس سے
نہ کبھی انہوں نے اپنی فطرت بدلی نہ رنگ ڈھنگ اختیار کیا.
سب میں رہتے ہوئے انہوں نے خود کو سب سے جدا رکھا ہے.
کوا قوم زندہ باد
کائیں، کائیں، کائیں

Comments

Click here to post a comment