الفریڈ آیا اور گزر گیا ۔ لیکن اپنے پیچھے اپنی نشانیاں چھوڑ گیا ہے ۔ اس کی باقیات آج ہر طرف بکھری نظر آئیں ۔ ٹوٹی شاخیں، گرے درخت، پانی میں ڈوبی سڑکیں، خوفزدہ ڈرے سہمے لوگ ، اجڑے گھر اور تاریک محلے ہر طرف الفریڈ اپنے جانے کے بعد بھی موجود ہے۔ کچھ نشانات تو مٹ جائیں گے لیکن کچھ نشانیاں اور کچھ یادیں شاید عمر بھر رہ جائیں۔ کچھ زخم ایسے ہوں گے جو زندگی بھر ہرے رہیں گے۔
پچاس سال بعد آنے والے اس سمندری بادباراں نے وہ نقوش چھوڑے ہیں جو آئندہ آنے والے پچاس سال تک تو ضرور یاد رکھے جائیں گے۔ گھروں کی چھتیں اڑ گئیں، گلیاں پانی سے بھر گئیں، لوگ بنیادی انسانی سہولتوں کے بغیر چار دن تک گھروں میں مقید رہے۔ اہل برسبین اور اہل گولڈ کوسٹ نے اتنی بارش اتنے کم وقت میں شاید پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لگتاتھا جیسے آسمان پھٹ پڑاہو ۔چار دن تک لگاتار نہ ختم ہونے والی موسلادھار بارش ایسے برسی کہ پہلے کبھی نہیں برسی تھی۔ آج صبح سے بارش کا یہ سلسلہ تو تھم گیا ہے، لیکن اپنے پیچھے ان گنت کہانیاں، انمٹ نہ بھولنے والی یادیں چھوڑ گیا ہے۔
برسبین اور گولڈ کوسٹ کے سارے نشیبی علاقے دریا کا سماں پیش کر رہےہیں۔رستے بند ہیں۔ یہ تفریق محال ہے کہ سمندر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور دریا کہاں ختم ہوتا ہے۔ چار لاکھ سے زائد افراد بجلی، انٹرنیٹ ، پانی اور فون کی سہولت سے تا حال محروم ہیں۔ کچھ ان بنیادی سہولتوں سے محرومی کا نوحہ سناتے دکھائی دیتے ہیں تو کچھ ان سے محروم نہ ہونے کے شادیانے بجاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لگتا ہے جیسے انتظامیہ اور ادارے اتنی بڑی مصیبت کے لیے تیار نہ تھے، یا ان کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں ہیں کہ سرعت سے کوئی مدد فراہم کر سکیں۔ برسبین کے واپڈاوالے بجلی کی بحالی کے لیے چھ اور سات دن کی نوید سنا رہے ہیں۔
مارکیٹوں اور دکانوں میں بھیڑ کا وہی عالم ہے جو الفریڈ کے آنے سے پہلے تھا، لیکن آج ہر طرف خالی شیلف خریداروں کامنہ چڑا رہے تھے، کیونکہ سپلائی لائن بری طرح متاثر ہے۔ شاید اگلے ایک دو روز میں صورت حال بہتر ہو جائے، کیونکہ کاروبار زندگی معمول پر آنا شروع ہوگیا ہے۔ کچھ علاقوں میں بجلی کی بحالی کا کام بھی شروع ہوگیا ہے۔ آج گھر کے لان میں بیٹھ کر دیکھا تو فون بھی کام کر رہا تھا، جس کی سروس گھر کے اندر جانے پر غائب ہو جاتی ہے۔ کاروبار زندگی تو معمول پر آہی جائے گا، چڑھا پانی بھی اتر جائے گا، مکان بھی دوبارہ بن جائیں گے، لیکن الفریڈ کے لگائے بعض زخموں کے نشان لوگ یادوں کی صورت میں اپنے بچوں کو دکھانے کے لیے محفوظ رکھیں گے۔
چار دن کےبعد آج کلینک جانا ہواتو آنے والا ہر مریض پھر ایک نئی کہانی سنا رہا تھا۔لیکن موضوع مختلف تھا، نوعیت اور طرح کی تھی۔ کچھ آپ بیتی تھی تو کوئی جگ بیتی۔ کہیں قربانی اورایثار کا جذبہ کارفرما تھا تو کوئی قصہ خودغرضی اور احسان فراموشی سے جڑا ہوا تھا۔ میں جان کورل کا انتظار کرتا رہا کہ ایک بار پھر اس کا شکریہ ادا کر سکوں۔ اسے آنا تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ محکمہ موسمیات والی بی بی بھی نہیں آئی۔ خدا کی طرف سے آنے والی آفتیں انسانوں کو انسانوں پر آشکار کرنے کے لیے ہی ہوتی ہیں۔ ظرف پرکھنے کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔ وقت گزر جاتا ہے کہانی یاد رہ جاتی ہے۔ میں نے آج مریض کم دیکھے لیکن کہانیاں زیادہ سنیں۔ بہت سی کہانیاں ایسی بھی تھیں کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو سنانے کے لیے بھی سنبھال رکھیں گے ۔
برگِ تر خشک می شَوَد بہ زماں
برگِ چشمانِ ما ہمیشہ تر است
چھوٹے پیارے بھائی ڈاکٹر حسیب قریشی کا بہت ممنون ہوں جو آج کوئی چالیس کلومیٹر دور سے افطاری کا سامان لے کر آئے۔ دل سے ان کے لیے اور نبیلہ بھابھی کے لیے دعائیں نکلتی ہیں ۔ اللّہ انھیں شاد باد اور خوش وخرم رکھے اور ان کے لیے بھی ویسی ہی آسانیاں پیدا کرے جیسی آسانیاں وہ دوسروں کے لئے پیداکرتے ہیں.
از صد سخن پیرم یک نکتہ مرا یاد است
عالم نہ شود ویراں تا میکدہ آباد است !
تبصرہ لکھیے