ہوم << رمضان، گناہوں سے نجات کا سنہری موقع - عبدالجبار سلہری

رمضان، گناہوں سے نجات کا سنہری موقع - عبدالجبار سلہری

ذرا تصور کیجیے، ایک شخص ہے جو میل کچیل میں لت پت، بے ترتیب، اور بدبو دار ہے۔ لوگ اس کے قریب آنے سے کتراتے ہیں۔ اسے بار بار سمجھایا جاتا ہے کہ نہا دھو کر صاف ستھرا ہو جائے، مگر وہ اپنی ضد پر اڑا رہتا ہے۔ اب حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ اسی حال میں بادشاہ کے دربار میں جانے کا ارادہ رکھتا ہے! اسے احساس ہی نہیں کہ بادشاہ اس سے کتنی محبت کرتا ہے۔ اگر وہ جان لے تو کبھی گندگی کے ساتھ دربار کا رُخ نہ کرے، بلکہ خوشبو لگا کر، بہترین لباس پہن کر حاضر ہو۔

یہ کہانی کسی اور کی نہیں، بلکہ ہماری اپنی ہے۔ ہم بھی تو اسی طرح گناہوں میں آلودہ ہیں، ہماری روحیں معصیت کی گرد میں لپٹی ہوئی ہیں، مگر پھر بھی نادانی میں اللہ کے دربار میں جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔

سوچیے، اگر کوئی معمولی شخص کسی حسین دوشیزہ کی محبت میں گرفتار ہو جائے، تو آئینے کے سامنے بار بار خود کو دیکھے گا، لباس درست کرے گا، خوشبو لگائے گا تاکہ محبوب کے سامنے جانے کے لائق بن سکے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خدائے تعالیٰ کی محبت کے دعوے دار ہوں، مگر اپنی بداعمالیوں کو دور کرنے کی کوشش نہ کریں؟ یہاں تک کہ اگر کسی پر بادشاہ کی خاص نظرِ کرم ہو جائے، تو وہ اپنی جان، مال، سب کچھ اس کی رضا کے لیے قربان کر دیتا ہے۔ تو کیا ہمیں نہیں معلوم کہ رمضان وہ خاص مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے؟

رمضان کی مثال یوں سمجھیں جیسے کوئی فقیر گرد و غبار میں اَٹا ہوا ہو، بدبو میں لپٹا ہو، مگر بادشاہ کے حکم پر اسے شاہی حمام میں لے جایا جائے، خوشبودار صابن سے نہلایا جائے، عمدہ لباس پہنایا جائے، اور شاہی دربار میں پیش کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ بھی اپنے بندوں کو اسی طرح تقویٰ کے حمام میں داخل کرتا ہے تاکہ وہ گناہوں سے پاک ہو جائیں۔ روزے، نماز، زکوٰۃ، اور دیگر عبادات، یہ وہ خوشبودار صابن ہیں جو روح کی میل دھوتے ہیں۔ مگر افسوس! ہم بہانے تراشتے ہیں کہ "ہائے! گرمی میں روزہ رکھنا مشکل ہے!"۔ "ہائے! فجر کی نماز میں نیند آتی ہے!"۔ "ہائے! زکوٰۃ کا بوجھ!" یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی بچہ نہانے سے گھبراتا ہے، مگر ماں زبردستی اسے نہلا کر پاک صاف کر دیتی ہے کیونکہ وہ اپنی اولاد کی بھلائی چاہتی ہے۔

رمضان کی برکتوں کو یوں سمجھیں جیسے کوئی بادلوں سے لبریز موسم ہو، اچانک گھنگور گھٹائیں چھا جائیں، ٹھنڈی ہوائیں چلیں، اور بارش برسنے لگے۔ لوگ خوشی خوشی اپنے برتن بھرنے نکلیں، زمین سیراب ہو جائے، درخت ہرے بھرے ہو جائیں۔ مگر کچھ بدقسمت ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی بند کمرے میں بیٹھے رہتے ہیں، نہ باہر نکلتے ہیں، نہ بارش کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی حال ان غافل لوگوں کا ہے جو رمضان کی برکتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ رحمت کی بارش برستی رہتی ہے، مغفرت کے دروازے کھلتے ہیں، مگر وہ گناہوں کی تاریکی میں پڑے رہتے ہیں۔ جب باہر نکلتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ بارش ختم ہو چکی ہے، بادل چھٹ چکے ہیں، اور موسم بدل چکا ہے۔

رمضان وہ مہینہ ہے جب گناہ گاروں کی زنجیریں کاٹی جاتی ہیں، قیدیوں کو آزادی نصیب ہوتی ہے۔ مگر حیرت ہے کہ کچھ لوگ آزادی کے بجائے د
وبارہ قید میں جانے پر راضی ہیں! شیطان دھوکا دیتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے نیک اعمال کی کوئی حیثیت نہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ کوئی نیکی معمولی نہیں ہوتی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: "نیکی کے کسی بھی عمل کو ہرگز معمولی نہ سمجھو۔" (مسند الشہاب، حدیث: 935). ایک عورت نے پیاسے کتے کو پانی پلایا، اللہ نے اسے معاف کر دیا۔ ایک شخص نے راستے سے کانٹا ہٹا دیا، اللہ نے اسے جنت کا حقدار بنا دیا۔

یہ دنیا ایک قید خانہ ہے، جہاں شیطان کے جال ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں:
"صد ہزاراں دام و دانہ است اے خدا!
ما چو مرغانِ حریص و بے نوا!"
(ترجمہ: اے اللہ! ہر طرف لاکھوں جال اور دانے بچھے ہوئے ہیں، اور ہم نادان پرندوں کی طرح ان میں پھنسنے کے لیے لپک رہے ہیں۔)
اللہ بار بار نجات کے دروازے کھولتا ہے، مگر ہم پھر بھی اپنی غفلت میں مست رہتے ہیں۔

عزیزان من! رمضان برکتوں کا بادل تھا، برس کر جا رہا ہے۔ خوش نصیب وہ ہیں جو اس کی برکتوں سے مستفید ہوئے، اپنی روح کو گناہوں کی آلودگی سے پاک کیا، اور تقویٰ کا لباس پہن لیا۔ مگر بدبخت وہ ہیں جو سوتے رہے، غفلت میں پڑے رہے، اور جب آنکھ کھلے گی تو پانی سر سے گزر چکا ہوگا۔ سوچیے! کیا ہم نے رمضان کی رحمتوں سے فائدہ اٹھایا؟ یا پھر ہم بھی ان غافلوں میں شامل ہیں جو رحمت کی بارش میں بھی پیاسے رہ جاتے ہیں؟ رمضان جا رہا ہے، شاید زندگی میں دوبارہ نصیب ہو یا نہ ہو۔ جو وقت باقی ہے، اسے غنیمت جانو، توبہ کرو، نیک اعمال اختیار کرو، اور اللہ کی رضا حاصل کرو۔ اللہ ہمیں رمضان کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی توفیق دے۔ آمین!