ہوم << سورہ آل عمران: تشکیک اور اگناسٹک ذہنیت کے لیے تریاق - عاطف ہاشمی

سورہ آل عمران: تشکیک اور اگناسٹک ذہنیت کے لیے تریاق - عاطف ہاشمی

انسانی عقل فطری طور پر جستجو پسند ہے۔ وہ حقیقت کی کھوج میں سوالات اٹھاتی ہے، شبہات کا سامنا کرتی ہے اور یقین و تشکیک کے درمیان ایک مسلسل کشمکش میں مبتلا رہتی ہے۔ کچھ لوگ شک کو حقیقت تک پہنچنے کا ذریعہ بناتے ہیں، جبکہ کچھ اس میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ یہی وہ ذہنی کیفیت ہے جسے آج "اگناسٹک ذہنیت" (Agnosticism) کہا جاتا ہے—یعنی وہ ذہن جو نہ مکمل انکار کی جسارت کرتا ہے نہ ہی اقرار کی ہمت، بلکہ غیر یقینی کیفیت میں معلق رہتا ہے۔ سورہ آل عمران اسی ذہنی کشمکش کو مخاطب کر کے اس کے اسباب واضح کرتی ہے اور اس کا علمی و عملی علاج پیش کرتی ہے۔

تشکیک کے اسباب:
1. متشابہات میں الجھنا: اس سورت کی ابتدا میں ہی اس ذہنی کیفیت کا ایک بنیادی پہلو واضح کیا گیا ہے اور وہ ہے متشابہات میں الجھنا اور محکمات کے واضح دلائل کو نظرانداز کرنا، چنانچہ آیت نمبر 7 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
"فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ" (آل عمران 7) "جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے، وہ متشابہات کے پیچھے پڑ جاتے ہیں تاکہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی غلط تاویل کریں۔"

محکمات ان آیات کو کہتے ہیں جو بالکل واضح، غیر مبہم اور قطعی طور پر قابل فہم ہیں. ان میں وہ احکام و امور بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق ہر فرد سے ہے. جبکہ متشابہات ان آیات کو کہتے ہیں جن کا مفہوم عام فہم عقل کے دائرے سے باہر ہے جیسے اللہ کا وجود، اس کی صفات اور تقدیر وغیرہ. یہ آیت بتاتی ہے کہ اگناسٹک ذہنیت کے حامل افراد ان محکم آیات کے واضح دلائل کو چھوڑ کر متشابہات کے غیر ضروری الجھاؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ حقیقت کی تلاش کے بجائے ایسے سوالات میں الجھ جاتے ہیں جن میں شک کی گنجائش ہو، کیونکہ انھیں سوال اٹھانا حق کو قبول کرنے سے زیادہ آسان محسوس ہوتا ہے۔

2. علمی تکبر اور حقیقت سے فرار
اسی سورت ایسی ذہنیت کے حامل افراد کے لیے ایک اور رویے کی نشاندہی کی گئی ہے جو ان کے لیے ہدایت کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور وہ ہے علمی غرور، اللہ فرماتے ہیں:
"إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ" (آل عمران 86) "بے شک، اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا جو حد سے بڑھنے والا اور جھوٹا ہو۔"
یہاں "مسرف" کا مطلب ہے حد سے بڑھنے والا، یعنی جو شک اور اعتراض کو محض ایک فکری مشق (intellectual exercise) کے طور پر برتتا ہے، نہ کہ حق کی تلاش کے لیے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بعض افراد کے لیے شک دلیل نہیں بلکہ ایک نفسیاتی بہانہ ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کی جستجو میں نہیں، بلکہ خود کو ذہین ثابت کرنے کے لیے شکوک پیدا کرتے ہیں۔ وہ سچائی کے خلاف دلائل تلاش کرتے ہیں، مگر ایمان کے امکانات پر غور نہیں کرتے۔

اگناسٹک ذہنیت کا علاج:
فکر و محکم اصولوں پر استوار کرنا:
اس ذہنیت کا ایک علاج تو آیت نمبر 7 میں ہی بتا دیا گیا ہے اور وہ یہ کہ اپنی فکر کو متشابہات کی بجائے محکم اصولوں پر استوار کیا جائے تاکہ تشکیک کا راستہ بند ہو جائے. چنانچہ ارشاد باری ہے:
"هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ" (آل عمران 7) "اللہ نے تم پر یہ کتاب نازل کی، اس میں کچھ آیات محکم ہیں، وہی اصل کتاب ہیں، اور کچھ متشابہات ہیں۔"
ایمان والوں کی روش یہی ہوتی ہے کہ وہ محکم آیات پر یقین رکھتے ہیں، کیونکہ یہی "اُمُّ الکتاب" (یعنی کتاب کی اصل) ہیں، جبکہ اگناسٹک ذہن غیر ضروری سوالات میں الجھ کر اصل پیغام کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔

2. ثابت قدمی کی دعا اور عملی رہنمائی: سورت میں شک کے مقابلے میں یقین اور ڈگمگاتے قدموں کے مقابلے میں ثابت قدمی کا پورا فریم ورک دیا گیا ہے، اور اگلی ہی آیت نمبر 8 میں ثابت قدمی کے حصول کے لیے درج ذیل دعا سکھائی گئی ہے.
1. استقامت اور ثابت قدمی کی دعا:
"رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ۚ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ" (آل عمران8) "اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ہدایت کے بعد ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا کر۔ بے شک، تو ہی عطا کرنے والا ہے۔"
یہ دعا سورہ کے آغاز میں دی گئی ہے، اور سورت میں آگے چل کر بیان کردہ تمام تعلیمات درحقیقت اسی دعا کی عملی تکمیل کے لیے ہیں۔ثابت قدمی کی دعا کے بعد ان امور کا تذکرہ ہے جو اس راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں.

2. استقامت اور ثابت قدمی کی راہ میں رکاوٹیں:
آیت نمبر (14) زین للناس... میں بیان کیا گیا کہ دنیاوی مال و دولت، ناجائز خواہشات، اور گناہوں کی طرف مائل ہونا وہ عناصر ہیں جو انسان کو ایمان کی راہ سے ہٹاتے ہیں اور تشکیک یا بے یقینی کا سبب بنتے ہیں،
پھر ان امور کا تذکرہ ہے جو اس راہ میں مددگار ثابت ہوتے ہیں.

3. استقامت اور ثابت قدمی کے معاون عوامل:
عبادت، دعا، اللہ کی یاد، اور دعوتِ دین وہ ذرائع ہیں جو انسان کو استقامت عطا کرتے ہیں۔اسی ضمن میں آل عمران اور حضرت زکریا کی دعاؤں اور اللہ سے تعلق کا ذکر ہے. اس کے بعد صبر و ثبات کے دو مظاہر مذکور ہیں جن میں سے ایک کا تعلق زبان سے ہے اور دوسرے کا عمل سے.

4. زبانی اور عملی استقامت و ثابت قدمی:
زبانی صبر و ثبات کا مظہر نجران کے مسیحی وفد کے ساتھ مکالمے میں نظر آتا ہے جس میں مکالمے کے آداب بھی آ گئے ہیں، اس کے بعد عملی استقلال و ثبات کے مظہر کے طور پر غزوۂ احد کا تذکرہ ہے، اور اس میں بعض افراد کی طرف سے بے ثباتی کا جو مظاہرہ ہوا اس کی وجہ وہی چیزیں بنیں جن کا تذکرہ سورت کے شروع میں ثابت قدمی کی راہ میں رکاوٹیں کے ضمن میں تذکرہ ہے. اس طرح سورت کا آخری مضمون بھی پہلے مضمون سے مکمل مربوط ہے.

5. شک کے مقابلے میں ایمان پر استقامت و ثابت قدمی:
سورت کے آخری حصے میں آیت نمبر 186 میں واضح لفظوں میں مسلمانوں کو صبر و ثبات کے ساتھ تشکیک کا مقابلہ کرنے کی تلقین کی گئی، چنانچہ بیان کیا کہ:
"وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ" (آل عمران 186)[/arabic] "تمہیں ضرور اہل کتاب اور مشرکین کی طرف سے تکلیف دہ باتیں سننے کو ملیں گی، لیکن اگر تم صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو، تو یہی اصل کامیابی ہے۔"
یہاں قرآن صراحت کے ساتھ اس بات کا اظہارکر رہا ہےکہ اہل کتاب و مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا جائے گا، ان کی باتیں ناگوار گزریں گی، اس لیے قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ تشکیک اور اعتراضات کے مقابلے میں صبر اور استقامت کا رویہ اپنایا جائے۔ جیسے غزوۂ احد میں وقتی شکست کے باوجود ثابت قدم رہنے والے ہی اللہ کے ہاں کامیاب وکامران ٹھہرے، ویسے ہی نظریاتی میدان میں بھی استقامت ہی کامیابی کی کنجی ہے۔

آپ نے دیکھا کہ جو موضوعات بادی النظر میں بکھرے ہویے دکھائی دیتے ہیں اس سورت میں کس مرتب و مربوط انداز سے ایک ہی لڑی میں پرو دیے گئے ہیں؟ مضامین کے اندر یہ حسن ترتیب اس کلام کے الہامی اعجاز ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں، سوائے ان عقول کے جنہوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ متشابہات کو ہی موضوع بحث بنانا ہے اور بہر صورت اس کتاب سے کجی نکالنی ہی ہے، مذکورہ بالا نکات یہ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ آل عمران نہ صرف اگناسٹک ذہنیت کی جڑوں کو بے نقاب کرتی ہے، بلکہ مربوط انداز میں اس کا علاج بھی پیش کرتی ہے۔ اگر انسان قرآن کی روشنی میں اپنی عقل کو راہ دکھائے تو وہ یقین کی دولت سے بہرہ مند ہو سکتا ہے اور شک کی تاریکیوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آ سکتا ہے۔

Comments

عاطف ہاشمی

عاطف ہاشمی قطر میں مقیم محقق اور مترجم ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل قطر میں ترجمانی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں. اسلامی و سماجی علوم، عربی ادب اور ترجمہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ کتاب "تیس نشستیں: قرآن کریم کے ساتھ" قرآن کے موضوعات میں باہمی ربط کے حوالے سے ایک اہم تصنیف ہے، جو پاکستان کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی شائع ہو چکی ہے۔

Click here to post a comment