عفان کی اماں اس کی آئے دن کی فرمائشوں سے بڑی عاجز تھی۔کبھی کھلونا بندوق چاہیے تو کبھی گاڑی، کبھی سائیکل دلانے کی فرمائش،کبھی یہ کبھی وہ۔اس کی ان عادتوں نے تو گھر کا سکون بھی برباد کرکے رکھا ہوا تھا۔
پچھلے ہفتے بلبلوں والی بندوق کی فرمائش کر ڈالی۔منیرہ بیگم نے یوں توں کرکے وہ فرمائش پوری کی۔
آج صبح سے موٹر سائیکل دلانے کی ضد کیے بیٹھا تھا۔
گھر کا سارا پیسہ عفان کے انہی اللّوں تللّوں پر خرچ ہو جاتا تھا۔
منیرہ اسے سمجھاسمجھا کر تھک چکی تھی۔
عفّان کی امّاں کو یہ سمجھ نہ آرہی تھی کہ اس مسئلے سے کیسے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔
دراصل گھر کا اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بے جا لاڈ پیار نے عفّان کو بگاڑ کر رکھ دیا تھا۔
اگر کبھی اس کی کوئی فرمائش پوری نہ ہوتی تو وہ ہتھے سے اُکھڑ جاتا۔
گھر میں پھر خوب طوفانِ بدتمیزی برپا ہوتا۔
پڑھائی سے اس کا دھیان ہٹتا جارہا تھا۔
اس کی امی منیرہ اس صورتحال سے بہت پریشان تھی۔
آج بھی عفان کی اپنی امی سے اسی بات پر بحث ہورہی تھی۔
وہ ایک بڑے سے میدان میں کھڑا تھا۔لوگ بھی جوق درجوق اسی میدان میں جمع ہورہے تھے۔ میدان کے ایک کونے میں ایک ضعیف العمر باریش بزرگ براجمان تھے۔
اس بزرگ کے پاس مٹی کا ایک بڑا سا خالی مٹکا تھا۔
وہ مٹکا تھا تو مٹی کا ہی لیکن بڑے ہی خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔
مٹکے کی خوبصورتی ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی۔
وہ باریش بزرگ بھی لوگوں کو اپنی طرف ہی بلا رہے تھے۔
سینکڑوں لوگ جن میں بچے، بوڑھے، جوان، بزرگ،مرد عورتیں شامل تھے۔اسی مٹکے کی طرف بھاگ رہے تھے۔
وہ کوئی ایسا ہی جادوئی مٹکا معلوم ہوتا تھا۔جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھینچے چلے جا رہے تھے۔
عفّان کچھ دیر تو دُور کھڑا یہ منظر دیکھتا رہا۔پھر وہ بھی اِنہی سینکڑوں لوگوں کا پیچھا کرتے ہوئے اسی بزرگ کی طرف روانہ ہوا۔
آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے پاس آؤ
میں آج آپ کو اس مٹکے کے جادوئی کرتب دکھاتا ہوں۔
لوگ تو یوں تھے جیسے اس مٹکے کے جادوئی سحر میں جکڑے جا رہے تھے۔
متجسّس عفّان بھی لوگوں کے اسی ہجوم کا حصہ بن چکا تھا۔
اب تو لوگوں کا ایک بڑا مجمع وہاں جمع ہو چکا تھا۔
بزرگ نے مٹکا الٹا پلٹا کر لوگوں کو دکھایا جیسے یہ یقین دہانی کرانا چاہ رہا ہو کہ دیکھ لو! مٹکا بالکل خالی ہے۔
بظاہر یہ مٹکا چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے لیکن اس میں بہت کچھ سمانے کی گنجائش موجود ہے۔
اب آپ کچھ ہی دیر میں اس مٹکے کا کمال دیکھیں گے۔
بزرگ حاضرین سے مخاطب تھے۔
لوگ مٹکے کو یوں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے جیسے انتظار میں ہوں کہ کب یہ مٹکا اپنا ہنر دکھانا شروع کرے گا۔
اب آپ لوگ سب باری باری اپنی خواہشات بتاؤ ۔اپ کی ہر خواہش کے بدلے میں پانی کا ایک قطرہ اس مٹکے میں جمع ہوتا جائے گا۔
لوگوں کے لیے یہ ایک حیرت انگیز عمل تھا۔
لیکن پانی آئے گا کہاں سے؟اچانک عفان بول اٹھا
پانی غیب سے آئے گا۔آپ ہر خواہش کے بدلے میں پانی کے قطرے کو مٹکے میں جاتا اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے۔
بزرگ کی یہ بات سن کر لوگ مزید حیرت زدہ سےتھے۔
کیا ایک شخص ایک سے زیادہ خواہشیں بتا سکتا ہے؟
ہجوم سے آواز آئی۔
ہاں ہاں کیوں نہیں۔بزرگ نے جواب دیا
اب تو جیسے جیسے لوگ خواہشیں بتاتے جاتے۔ہر خواہش کے بدلے ایک قطرہ شَڑَپ سے مٹکے میں گرنے کی آواز آتی۔
رات سے صبح ہوگئی۔ صبح سے شام اور پھر رات سے صبح کی سپیدی نمودار ہونے لگی۔
لیکن لوگوں کی خواہشیں ختم ہونے میں نہیں آرہی تھیں۔
قطرہ قطرہ کرکے مٹکا پانی سے لبالب بھر گیا۔اب تو پانی مٹکے سے باہر آنے لگا۔دیکھتے ہی دیکھتے پانی پورے میدان میں بھر گیا۔
میدان کسی تالاب کا منظر پیش کرنے لگا۔
پانی لوگوں کے گھٹنوں سے ہوتا ہوا کندھوں تک اور پھر سر تک پہنچ گیا۔
خواہشات کا انبار بڑھتے بڑھتے میدان سیلاب کا سا منظر پیش کرنے لگا۔
لوگ اس سیلاب میں بہنے اور چیخنے چلانے لگے۔
لیکن ان کی چیخ وپکار بے سود ثابت ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگی۔
پانی کے اس ریلے میں عفان بھی بہتاچلا گیا اور غوطے کھانے لگا۔اس کے لیے سانس لینا محال ہوگیا۔
غوطے کھاتے لوگوں کی چیخیں آسمان کو چھونے لگیں۔
لوگوں نے سنا وہ بزرگ پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ
اگر آپ لوگ اپنی اپنی خواہشات واپس لو گے تو ہی اس سیلاب سے بچ سکتے ہو۔
لوگوں کو تو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے۔انہوں نے یہ سنتے ہی اپنی خواہشات واپس لینا شروع کر دیں۔نتیجتاً سیلاب کازور ٹوٹ گیا اورسارے میدان کا پانی خشک ہوگیا۔صرف مٹکے میں ہی پانی موجود تھا۔
لوگ اپنے گھروں کو بھاگنے کے لیے پر تول ہی رہے تھے کہ بزرگ نے انہیں روکا۔
ٹھہرو!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری آخری بات سنتے جاؤ
یہ میری آپ کو نصیحت بھی ہے۔
آپ کی ضروری خواہشات بس اتنی ہی تھیں جتنا پانی مٹکے میں سما سکتا ہے۔
پانی کا سیلاب دراصل آپ کی لامحدود خواہشات اور بے قابو سیلاب درحقیقت آپ کی خواہشات کا بے لگام گھوڑا ہے۔جو سب کو بہاتا اور روندتا ہوا چلا جاتا ہے۔
اس لیے
ہمیشہ
یاد رکھو
کہ
زندگی میں خواہشات کو کبھی بھی یوں بے قابو نہ ہونے دو کہ ان کی تکمیل میں آپ کی زندگی ہی داؤ پر لگ جائے۔
اتنا کہہ کر وہ بزرگ مٹکے سمیت غائب ہوگیا اور لوگ ہون٘قوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
عفّان ہڑبڑا کر اٹھا ۔اس کا بدن پسینے سے شرابور اور چہرہ خوفزدہ تھا۔وہ آنکھیں مَل مَل کر یوں دیکھ رہا تھا جیسے اسے اپنے دیکھے پر یقین نہ آرہا ہو۔
اس نے اپنا یہ خواب امی کو سنایا تو امی نے بھی بزرگ کی بات کی تائید کی۔
تھا تو یہ سب ایک خواب ہی لیکن عفان کو ایسا سبق دے گیا جو وہ زندگی بھر یاد رکھے گا۔
تب سے عفان نے اپنی خواہشات پر خاصی حد تک قابو پالیا ہے۔
اب تو اس کی اپنی امی کے ساتھ تُو تُکار بھی نہیں ہوتی۔
سچ ہے
"لامحدودخواہشات اور ان کی غلامی انسان کو تباہی کے دھانے پر لے جاتی ہے۔"
تبصرہ لکھیے