ہوم << خدا کی ضرورت اور الحادی اقدار - ڈاکٹر حسیب احمد خان

خدا کی ضرورت اور الحادی اقدار - ڈاکٹر حسیب احمد خان

مادیت پرست مغرب کو خدا اور مذہب سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں خدا کی کیا ضرورت ؟ مغرب کے پراڈائم شفٹ میں جب وہ زندگی کے ہر ہر دائرے اور ہر ہر شعبے کو مادی فائدے کے پیمانے پر ماپنے کھڑے ہوئے تو ان کی نگاہ محدود سے محدود تر ہوتی چلی گئی اور جب انہوں نے حقائق کو جاننے کا واحد پیمانہ اپنی محدود تر عقل کی تجربہ گاہ کو سمجھ لیا تو وہ سیدھی راہ سے بھٹکتے چلے گئے اسی گروہ کی بابت قرآن کریم میں آتا ہے۔

اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَ اَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّ خَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَ قَلْبِهٖ وَ جَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةًؕ-فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(23) ترجمہ : دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا ٹھہرایا اور اللہ نے اُسے باوصف علم کے گمراہ کیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈالا تو اللہ کے بعد اُسے کون راہ دکھائے تو کیا تم دھیان نہیں کرتے۔

یہی وہ گروہ ہے کہ جو اپنی جہالت کے سبب گمراہ نہ ہوا بلکہ اس کی علمیت نے اسے گمراہی کے راستے پر ڈال دیا۔
یہ مادی تصور حیات مختلف زاویوں سے انسان کو اپنی گرفت میں لیتا ہے. کہیں پر کوئی ڈارون اسے ارتقاء کی راہ سجھاتا ہے اور یہ سبق پڑھاتا ہے کہ صرف مضبوط تر لوگوں کو جینے کا حق ہے تو کہیں پر کوئی مالتھس انہیں سمجھاتا ہے کہ جب تک اس انسانی دنیا کا ایک بڑا حصہ کم نہ کردیا جائے. اور موجود لوگوں کی تعداد وسائل کے مقابلے میں محدود نہ ہوجائے بقاء ممکن نہیں کہیں پر کوئی فرائیڈ تمام تر انسانی جذبات و کیفیات کو نفسیاتی عوارض اور کمزوریوں سے جوڑ دیتا ہے. کہیں پر ہابز کھڑا ہوتا ہے اور ایک بڑے عفریت لیوائیتھون کی جانب متوجہ کرتا ہے. اور یہ سمجھاتا ہے کہ ایک فطری ریاست اسی وقت کھڑی ہو سکتی ہے کہ جب تک بڑے پیمانے پر قتل و خون نہ ہوجائے.

کہیں پر کوئی رسل تمام مابعد الطبیعیاتی امور کو واہمہ قرار دیکر ظاہر پرستی کی راہ ہموار کرتا ہے تو کہیں پر کوئی نطشے خدا کی موت کا اعلان کردیتا ہے. ایسے میں جان سٹیورٹ مل اور جیریمی بینتھم یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ جس چیز کا کوئی مادی فائدہ نہ ہو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ انسانیت اور انسان کی تباہی کے فیصلے مشینیت زدہ اور مادیت پرست یورپ نے جس انداز میں کیے ہیں اور جو کچھ اقدار اور اخلاقی و اصولی پیمانے ان کی جانب سے سامنے آئے ہیں وہ اتنے رکیک اور پست سطح کے ہیں کہ مادیت زدہ انسانوں کی عقل پر ماتم کرنے کو جی کرتا ہے۔

جب ہم سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ مذہب اور خدا کی ضرورت کیوں تو ہمارے بہت سے مفکرین ازخود دفاعی پوزیشن پر چلے جاتے ہیں اور شیشے کے گھر میں بیٹھ کر مذہب کا مقدمہ لڑنے کی کوشش کرتے ان کے اندر اتنی جرات اور اعتماد ہی نہیں ہوتا کہ وہ اگلوں سے یہ پوچھ سکیں کہ میاں تم خود ہوائی قلعوں میں بیٹھ کر ہم سے سوال کرتے ہو، ہمارے ان مفاہمت پسند مفکرین کو کبھی یہ بات سوجھتی ہی نہیں کہ وہ سوال جو ایک مادیت پرست ملحد ہم سے پوچھ رہا ہے کم از کم اس سے اس کی اقدار کی بابت استفسار تو کیا جائے کم از کم اسے کٹہرے میں تو لایا جائے گویا کہ انہوں نے پہلے ہی ان اقدار کی برتری کو تسلیم کرلیا۔

ویسے تو الحادی اقدار کوئی متفق علیہ معاملہ نہیں ہیں یہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں اور مخمصہ در مخمصہ کا شکار ہیں جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک اور یوٹیلیٹیرین سے ایگیلی ٹیرین ازم تک ان کا ہر ہر فلسفہ آپس میں متصادم ہے لیکن اگر ان کی کوئی بنیاد تلاش بھی کرلی جائے تو وہ اتنی کمزور ہے کہ اس پر کوئی عمارت کھڑی کرنا ممکن ہی نہیں۔مثال کے طور پر ایک مادیت پرست ذہن ایک تمثیل پیش کرتا ہے ، فرض کیجیے کہ یہ دنیا ایک مکان ہے اور اس دنیا میں موجود چیزیں ہماری ضرورت پوری کرتی ہیں اس مکان میں موجود چیزوں کی ضرورت و اہمیت کا تعین کیسے کیا جائے؟ یہ ایک صوفہ ہے جس پر ہم بیٹھتے ہیں ، یہ گھڑی ہے جس میں ہم وقت دیکھتے ہیں ، یہ ایک چولہا ہے جس پر کھانا پکتا ، پورچ میں کھڑی کار سفر میں استعمال ہوتی ہے ، لاؤنج میں رکھا فریج کھانے کو محفوظ رکھتا ہے ۔

اب اس مکان کے ایک گوشے میں کوئی مذہبی علامت ہے تو اس کی اہمیت کا تعین کیسے کیا جائے گا ؟یہیں پر توقف کیجیے کیا یہ تصویر اسی طرح ہے کہ جس انداز میں پیش کی گئی ہے اب اس منظر کو ہم پھر سے دیکھتے ہیں اور اشیاء کی قیمت کا تعین کرتے ہیں۔کیا ڈرائنگ روم میں رکھا ہوا صوفہ لاؤنج میں رکھے ہوئے فریج سے زیادہ قیمتی ہوگا ؟ بظاہر تو ایسا دکھائی نہیں دیتا۔کیا پورچ میں کھڑی کار لاؤنج میں رکھے فریج سے زیادہ قیمتی ہوگی ؟ بظاہر تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے۔کیا تجوری میں رکھا سونا پورچ میں کھڑی کار سے زیادہ قیمتی ہو سکتا ہے ؟ ممکن ہے کہ اس کی مالیت کار سے زیادہ ہو۔

کیا سٹڈی روم میں موجود لیپ ٹاپ کے اندر محفوظ ڈیتا ان سب چیزوں سے زیادہ اہم ہو سکتا ہے ؟ یہ ڈیٹا کی نوعیت پر بیس کرتا ہے۔لیکن کیا کوئی مادی فائدہ ہی قیمت کا تعین کرتا ہے ؟اب ہم ایک دوسرا منظر نامہ پیش کرتے ہیں اس گھر کے کسی ایک کمرے کی دیوار پر مونا لیزا لگی ہوئی کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس کی کیا قیمت ہے ؟بعض کے نزدیک ایک بلین ڈالر ... اسی گھر میں ایک شرٹ ہے جو لیونل میسی یا رونالڈو نے کسی کلب کے میچ میں پہنی تھی اس کی کیا قیمت ہے ؟ پس معلوم ہوا کہ کسی بھی چیز کی قیمت اس کے مادی فائدے کی ہی بنیاد پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی جذباتی یا پھر جمالیاتی حیثیت بھی ہوا کرتی ہے یہاں پر مادی فائدے سے بڑھ کر جذباتی یا جمالیاتی پیمانوں پر قیمت کا تعین ہو رہا ہے۔

اب ایک اور منظر نامہ پیش کرتے ہیں اچانک کوئی پینڈامک نمودار ہوتا ہے اور اس گھر کے میکنوں کر اب گھر میں ہی موجود غذائی ذخیرے پر گزارہ کرنا ہوگا تو کیا وہ آٹا ، دال ، چاول ، چینی ، دودھ تمام تر مادی ، جذباتی اور جمالیاتی چیزوں سے زیادہ قیمتی نہ ہو جائیں گے ؟تو کیا زندہ رہنا سب سے زیادہ اہم ہو جائے گا۔ پھر ایک اور منظر نامہ دیکھیے اسی گھر میں کسی کو اچانک ہارٹ اٹیک ہوتا ہے تو ان تمام چیزوں سے زیادہ وہ گولی اہم نہ ہوجائے گی کہ جو دل کے دورہ کے وقت زبان کے نیچے رکھی جاتی ہے ؟اب یہاں پر ایک ہیومنسٹ کھڑا ہوتا ہے اور وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سب سے اہم چیز خود انسان ہے، تو کیا اس کا یہ دعویٰ درست ہے ؟

ایک مادیت پرست انسان بوڑھے والدین کو صرف اسلیے گھر سے نکال دیتا ہے کہ اب ان کی کوئی مادی قیمت نہیں رہی بلکہ وہ ایک لائیبلیٹی بن چکے ہیں تو کیا انسان واقعی اہم ہے ؟اب آپ کے سامنے ایک اور منظر نامہ پیش کرتے ہیں ایک معروف سرجن کے پاس پانچ مریض آتے ہیں ایک کو آنکھوں کی ، ایک کو دل کی ، ایک کو جگر کی ، ایک کو گردوں کی اور ایک کو دماغ کی ضرورت ہے ان میں سے ایک ڈاکٹر ہے ، ایک انجینئر ہے ، ایک نیوکلیر فزکس سے منسلک ہے ، ایک معروف اکانومسٹ ہے ، ایک سپیس سائنس کا بندہ ہے ہر ہر شعبے کا فرد قیمتی اور اہم ہے.

اب اس ڈاکٹر کے پڑوس میں ایک ایسا شخص ہے کہ جس کا کوئی روزگار نہیں وہ زیادہ تر اپنے گھر میں رہتا ہے اس کی کوئی معاشی حیثیت نہیں اس کی کوئی معاشرتی افادیت نہیں اور اس کے نہ ہونے سے اس مادی دنیا کو کوئی بھی علمی ، فکری ، اخلاقی ، مالی ، جمالیاتی نقصان نہیں ہوگا اس کا کوئی رشتے دار بھی نہیں تو اس شخص کی کوئی جذباتی اہمیت بھی کسی کے لیے نہیں ہے۔ تو کیا وہ سرجن اس کا دل ، اس کا دماغ ، اس کی آنکھیں ، اس کے گردے اس کا جگر زیادہ اہم زیادہ فعال زیادہ ضرورت مند افراد کو لگا سکتا ہے ؟اگر لگا سکتا ہے تو اس کے اقداری پیمانے کیا ہیں ؟ اگر نہیں لگا سکتا تو اس کے اقداری پیمانے کیا ہیں ؟

اور اگر ہم بعض اخلاقی پیمانوں پر اسے غلط کہیں تو وہ اخلاقی پیمانے کیا ہیں ؟ کیا شخصی آزادی کا پیمانہ ؟ تو اگر اس پیامنے پر وہ شخص ایک مخصوص قیمت کی بنیاد پر اپنی خوشی سے اپنے اعضاء ان لوگوں کو دے دے تو کیا یہ درست ہوگا ؟اور اگر یہ درست ہوگا تو ان اعضاء کے بغیر اس شخص کیلے وہ قیمت کس طرح مفید ہوگی ؟ اب ایک اور منظر نامہ تخلیق کیجیے اس شخص کی ایک بیٹی ہے اور اسے اس بیٹی سے بہت محبت ہے اور وہ ان اعضاء کو بیچ کر اپنی بیٹی کے مستقبل کو محفوظ کر سکتا ہے تو کیا ایک پیمانہ محبت بھی ہے ؟ اور اگر وہ شخص اس امید پر کہ وہ قیمت اس کی بیٹی کو مل ہی جائے گی اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہ سرجن وہ قیمت اس بچی کو دے ہی دے ؟ کیا یہ صرف گڈ فیتھ نہیں ہے!

اب غور فرمائیے کہ ایک مادیت پرست ذہن کے پاس انسانیت کی سطح پر کوئی بھی متفق علیہ پیمانہ اس درجے کا موجود ہی نہیں کہ وہ کسی بھی شے کی حقیقی قیمت کا تعین کر سکے یہاں تک کہ انسان کی قیمت بھی۔ تو پھر وہ کس جرات کے ساتھ مذہب اور خدا کی کوئی قدر اور کوئی قیمت متعین کرنے کا سوال پوچھ سکتے ہیں اور کس پیمانے پر اسے ماپ سکتے ہیں مالی ، جذباتی ، جمالیاتی وہ کون سا ایسا مکمل پیمانہ ان کے پاس موجود ہے کہ وہ مذہب اور خدا کی قیمت کا تعین کر سکیں۔ ہاں آخر میں ان کے پاس صرف گڈ فیتھ بچتا ہے اور یہی مذہب کا بنیادی مقدمہ ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment