ہوم << بےوقوف دشمن ملے تو کیا ہوتا ہے؟ یوسف سراج

بےوقوف دشمن ملے تو کیا ہوتا ہے؟ یوسف سراج

بزرگوں سے سنتے تھے،دعا کرنی چاہیے کہ آدمی کو دشمن ملے تو کم از کم دانا ملے. بیوقوف دشمن ملے تو کیا ہوتا ہے، یہ ہمارے ہاں کے ایک بظاہر پڑھے لکھے کو دیکھ کے سوچنا چاہیے. اخبار میں بار پا لیا، علم کو ایسا زوال ہے کہ آنجناب کو عام لوگوں میں واقفیت حاصل ہوگئی، اس پر خود کو سکالر سمجھ لیا. کل سرمایہ علم یہ ہے کہ عربی کی شد بد صفر ہے، جس کے بغیر قرآن سے شناسائی بھی نہیں ہو سکتی،ادھر ماشاءاللہ طرہ اور عقل ایسی ہے کہ قرآن کی غلطیاں نکالنے کا دعویٰ کیے جاتے ہیں.

حالت یہ ہے کہ عربی سمجھنا تو دور کی بات عربوں کی طرح درست عربی خوانی تک سے بے بہرہ و نا بلد ہیں، لیکن عقل ایسی پائی کہ اپنی عربی سے جہالت کو انھوں نے ہتھیار سمجھ لیا اور اسی کو اپنی کل متاع جان کے حماقت کے نئے باب رقم کرنے کی ٹھانی۔ زعم آپ کو یہ کہ عالم میں آپ ایسا ذہین اور سوال اٹھانے والا نہیں ہوا. کوئی ادنی عربی کا طالب علم تو چھوڑیے ایک غیر مسلم مستشرق بھی آپ کے علمی افق پر قہقہے لگانے لگے. وہ آدمی جو امریکی پرائمری بچوں کو پڑھانے کے لیے امریکیوں کی طرف سے چھٹیوں میں بھی پڑھانے کے آداب سیکھنے پر لگایا جاتا ہے، چاہتا ہے کہ خدا کو کلام کرنے اور خدائی کرنے کے آداب سکھانے والا تسلیم کیا جائے. ایسے ایسے نکتے آنجناب کے ہاں قرآن پر اعتراض کے دیکھے جاتے ہیں کہ خود کوئی اصلی معترض قرآن بھی ایسی بچگانہ باتوں سے تنگ آ کے قرآن پر ایمان لے آئے.

فرمایا، قرآن کہتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ اس دور میں بھی شک تھا، سبحان اللہ، ایسی نکتہ وری پر آدمی کیوں نہ قربان جائے، یعنی انسانی جبلت میں شک اسٹیفن ہاکنگ کے دور میں پیدا ہوا؟ گویا بنیادی انسانی اوصاف پر بھی توجہ صفر.
فرمایا، قرآن میں ایک ہی جگہ ایک مضمون کیوں بیان نہ ہوگیا؟ ایسا ہی شخص کل کو شعر پر اعتراض کرے گا کہ یہ نثر کی ترتیب میں کیوں نہیں؟ اور خوش ہوگا کہ کیا علم وادب کی خدمت سر انجام دی، یعنی اتنا بھی ظرف نہیں کہ ہر چیز کا موقع محل سمجھ سکے، اس زبان کے طور اطوار سمجھ سکے. حالت یہ کہ انگریزی سمجھنے کے لیے انگریزی اصول سیکھنے پر مجبور ،اور خبط عظمت یہ ہے کہ بن جانے عربی کی غلطیاں نکالنے پر جرات آزما. حالت یہ کہ اسرائیل اور امریکہ کے ٹرمپ کو بھی اپنے اصولوں میں حق بجانب ثابت کرنے پر دن رات ایک کیے ہوئے اور عاقل ایسا کہ خدا کو خدا ہونے کے اصول سمجھانے میں اتارو ہونے کا زعم بردار۔

وہ دور اچھا تھا ،جب قرآن کے مخالفین کے پاس کم از کم علم تو تھا،وہ سوال تو کر سکتے تھے، کم از کم ان کے سوالات پر قہقہہ تو نہیں پڑتا تھا۔ سوال کرکے وہ اپنی نیگیٹو مارکنگ تو نہیں کروا بیٹھتے تھے۔ عربی کا علم تو خیر کیا ہوتا، اس ساری مشق میں حضور اپنی عقل کا حدود اربعہ بھی بیان کر بیٹھے. ادھر لیکن زوال علم و عقل ایسا کہ ناواقفوں میں سے کچھ اسے بھی سوال کر سکنے کی صلاحیت والا سمجھتے ہیں۔ دعا کرنی چاہیے، خدا علم نہ بھی دے تو کم از کم آدمی کو عقل ضرور دے. اس کا کم از کم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زبان سے اپنی رسوائی کا سامان کرنے سے بچ رہتا ہے۔

Comments

Avatar photo

حافظ یوسف سراج

حافظ یوسف سراج پیغام ٹی وی میں بطور اینکر اور ڈیجیٹل میڈیا ڈائریکٹر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دینی اور سماجی موضوعات پر قومی اخبارات میں کالم لکھے، اخبار مرحوم یا نیم جاں ہوگئے تو یہ کام اب سوشل میڈیا پر ہوجاتا ہے۔ صورت حال کے نام سے تازہ ترین سماجی و دینی موضوعات پر وی لاگز نشر ہوتے رہتے ہیں۔

Click here to post a comment