ہوم << اللہ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرنے کا نسخہ - محمد اکبر

اللہ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرنے کا نسخہ - محمد اکبر

اردو میں جب خزانے کا لفظ بولا جائے تو ذہن میں سب سے پہلے پیسہ آتا ہے ، مثلا کوئی کہے کہ فلاں شخص کے پاس بہت بڑا خزانہ ہے تو ہم فورا اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ اُس کے پاس بہت دولت ہوگی۔ اسی سوچ کے ساتھ ہم قرآن کریم پڑھتے ہیں اور جب اس طرح کی آیات سامنے آتی ہیں:
وَ لِلّٰهِ خَزَآىٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اور اللہ ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کے خزانے ہیں۔ (سورت منافقون: 7)
وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘ اور کوئی چیز نہیں ہے جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں۔ (سورت حجر: 21)

تو ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ کے پاس پیسوں کے خزانے ہیں۔ وہ تو ہیں لیکن پیسوں کے علاوہ بھی اس کے خزانوں میں ہر طرح کی خیر موجود ہے اور اللہ تعالی چاہتے ہیں کہ میرے خزانوں سے بھرپور فائدہ حاصل کیا جائے. اللہ کے خزانوں سے فائدہ حاصل کرنے کےلیے دعا ایک اے ٹی ایم کارڈ ہے کہ جب چاہو، جہاں چاہو، جس زبان میں چاہو ، جو چاہو، ہاتھ اٹھا کر مانگ لو۔

جب اللہ سے مانگنے لگیں تو اپنی مانگ کو چند مادی چیزوں میں محدود نہ کریں، ہر خیر مانگیں اور ہر چیز مانگیں حتی کہ پورے شہر میں آپ سے زیادہ مانگنے والا کوئی نہ ہو۔ اُس کے خزانوں میں سکون اور راحت ہے۔ اس لیے جب دل کی دنیا ویران ہو، روح پر غم اور اداسی کے بادل چھائے ہوں، طبیعت میں اکتاہٹ اور پریشانی کا بوجھ ہو تو ربِ محبت سے سکون و اطمینان کا سوال کریں اور منت کریں کہ مجھے آپ کے خزانوں سے سکون چاہیے یارب ۔ آپ کے علاوہ کسی کے پاس سکون کا خزانہ نہیں ہے۔

اس کے پاس ہدایت کا خزانہ ہے۔ جب راستہ دھندلا ہو جائے، قدم ڈگمگانے لگے، نیت میں جاہلیت والے خیالات آ رہے ہوں، شیطان اور نفس کے حملے شدید تر ہو رہے ہوں اور ہر لمحہ اللہ سے دوری بڑھ رہی ہو تو ربِ محبت سے ہدایت کا سوال کریں کیونکہ وہی ہے جو اپنے دوستوں کو ظلمت سے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے، بھٹکے ہوؤں کو راستہ دکھاتا ہے اور بند دروازوں کے پیچھے نئے دروازے کھولتا ہے۔ ہدایت جیسی عظیم متاع کے خزانے اُسی کے قبضے میں ہیں، ہدایت دنیا کے بازاروں اور بادشاہوں کے درباروں سے ملنے والی چیز نہیں ہے۔

عزت و رفعت کے خزانے اس کے پاس ہیں۔ جب لوگ بے عزت کر رہے ہوں، جملے کس رہے ہوں، بات سننے والا کوئی نہ ہو، ہر کوئی مخالف سمت میں کھڑا ہو ، ہر طرف سے تذلیل و تحقیر ہو رہی ہو ، تو ربِ محبت سے عزت کا سوال کریں کہ یا رب ! تعز من تشاء، تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے۔ مجھے لوگوں کی نگاہ میں باعزت بنا دے، مجھے وقار اور رفعت دے دے ، مجھے شہرت کے بجائے عظمت سے نواز دے۔ یاد رکھنا کہ اُس کی طرف سے عطا کی گئی بزرگی اور عزت کی چادر کا ایک دھاگہ بھی کوئی نہیں نکال سکتا۔ وہ چاہے تو خاک میں پڑے ذروں کو ستاروں سے بلند کر دے اور چاہے تو چمکتے ہوئے سورج کو چند لمحوں میں غروب کر دے۔

محبت اور قُربت کا خزانہ اُسی کے پاس ہے ۔ جب روح تڑپنے لگے، آنکھوں میں آنسوؤں کی جھڑی ہو، دل غموں سے بھر جائے ، محبت کے نام پر دھوکہ ہو جائے ، قُربت کے بہانے عصمت لُٹ جائے اور زمین پر ایک شخص بھی ایسا نظر نہ آئے جس کے کندھے پر سر رکھا جا سکے، جس کے سامنے راز و نیاز کی باتیں ہوں، جس کے سامنے کچھ بولنے کی ضرورت نہ پڑے ، صرف چہرے، آنکھوں اور آنسوؤں سے غموں کا اندازہ کر لے تو ربِ محبت سے اُس کی قُربت اور محبت کا سوال کریں کہ یارب! مجھے اپنے قریب کر لے۔ میرے درد اور ٹھیسوں کا علاج کر دے، مجھے دنیا اور دنیا والوں کی محبت میں گھل کر تباہ ہونے سے بچا لے ، میں آپ کا اور بس آپ ہی کا ہونا چاہتا ہوں، اپنے محبت اور قُربت کے خزانوں کو میرے لیے کھول دے۔

علم و فہم اور عمل کے خزانے اُسی کے پاس ہے۔ جب محسوس ہو کہ علم سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے، مطالعے سے اکتا رہا ہوں، جہالت بڑھ رہی ہے، علم تو ہے لیکن فہم نہیں ہے، سطحیت تو ہے لیکن گہرائی نہیں ہے، معلومات تو ہیں لیکن عمل نہیں ہے تو ربِ محبت سے رب زدنی علما کا سوال کر، وہ خاص اپنی جناب سے علم عطا کرے گا اور ایسا عطا کرے گا کہ اب تک کسی کے ذہن کو وہاں تک رسائی نہیں ہوئی ہو گی اور جب علیم ذات کی طرف سے علم ملتا ہے تو وہ خود ہی عمل پر مجبور کر دیتا ہے۔

توفیق کا خزانہ اُس کے پاس ہے۔ جب سستی بڑھ رہی ہو، اسباب کے ہوتے ہوئے کام نہ ہو رہا ہو، جوانی کے باجود سجدہ نہ ہو، عالم ہونے کے باجود تلاوت و تدبر نہ ہو ، تاجر ہونے کے باوجود طبیعت سے بخل نہ نکلے، مومن ہونے کے باجود غیبت اور جھوٹ سے نہ بچ سکیں ، مسلمان ہونے کے باوجود بدنظری اور برے خیالات سے چھٹکارا نہ ہو تو توفیق کا سوال کریں۔ وہی تو ہے جو نیکی کی توفیق دیتا ہے، برائی سے بچنے کی ہمت دیتا ہے۔ دل کو نیکی کی مٹھاس اور روح کو نیکی کی خوشبو بخشتا ہے ۔ جب اس کی توفیق شامل حال ہو جائے تو گناہ سے نفرت ہو جاتی ہے، شر سے نامانوسیت بڑھ جاتی ہے اور فسق ناپسندیدہ ہو جاتا ہے۔

ربِ محبت کے ایک خزانے کا نام عافیت ہے۔ یہ ایسا خزانہ ہے کہ ہم دنیا میں ہوں یا قبر، حشر اور آخرت میں، ہمیشہ اس کی ضرورت رہتی ہے۔ عافیت صرف بیماری سے بچنے کا نام نہیں بلکہ جسم کی صحت، دل کا سکون، دماغ کی راحت اور روح کی طمانینت یہ سب عافیتیں ہیں۔ عافیت کے بغیر تو دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی اور آسائش ادھوری و بے معنی ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یقین کے بعد عافیت سے بہتر اور کوئی خیر نہیں جو کسی کو دی گئی ہو۔

یہ سب رب کے خزانے ہیں، وہ چاہتا ہے کہ میرے خزانوں کو لوٹا جائے، مجھے سے علم، ہدایت، توفیق، عافیت، سعادت، رزق، عزت اور محبت و قربت کا سوال کیا جائے، ہر چیز خواہ وہ مادی ہو یا روحانی ، مجھ سے مانگی جائے۔ اس لیے اگر آپ کو کچھ لینا ہے، اپنی جھولی بھرنی ہے تو انسانوں کے دروازے مت کھٹکھٹائیں، دنیا کے بازاروں میں نہ بھٹکیں بلکہ اللہ کے خزانوں کا رخ کریں ، وہ رب ہے، رحیم ہے، غنی ہے۔ دیتا ہے اور بے حساب دیتا ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی؟ اپنے ہاتھ اٹھائیں، زبان کو دعا سے تر کریں، دل کو یقین سے بھریں اور اللہ کے در پر اپنی ساری چھوٹی بڑی حاجات رکھ دیں کیونکہ وہی ہے جو کہتا ہے:
وَلِلّٰهِ خَزَآىٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ آسمانوں اور زمین کے سارے خزانے تو میرے ہی پاس ہیں۔

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دِکھلائیں کسے، رہروِ منزل ہی نہیں

Comments

Avatar photo

محمد اکبر

محمد اکبر دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قرآن فہمی ان کی پہچان ہے۔ قرآنی اسباق کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف آؤ! رب سے باتیں کریں اور اللہ ہے نا، امید کا راستہ دکھاتی ہیں، شخصیت کی بہترین تعمیر کرتی ہیں۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعۃ الشیخ یحیی المدنی کراچی میں تخصص کے طالب علم ہیں

Click here to post a comment