تاریخ ہمیں یہی سکھاتی ہے کہ کوئی ملک یا قیادت دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگ لڑ کر کبھی دیرپا کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔جو قومیں یا قیادتیں دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگیں لڑتی ہیں، وہ بالآخر بے بسی اور لاچاری کا شکار ہو جاتی ہیں۔ آج دنیا کے حالات پر نظر ڈالیں تو یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی کی موجودہ حالت اس کا عملی ثبوت ہے۔ ایک وقت تھا جب مغربی ممالک اور امریکہ اس جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر یوکرین کے ساتھ کھڑے تھے، لیکن جیسے ہی عالمی ترجیحات بدلیں، ویسے ہی یوکرین مشکلات میں گھِرتا چلا گیا۔جنگ کے ابتدائی دنوں میں زیلنسکی کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا، عالمی میڈیا ان کے بیانات کو نمایاں کوریج دے رہا تھا، اور مغربی ممالک،امریکہ انہیں جدید اسلحہ، مالی امداد اور سفارتی حمایت فراہم کر رہے تھے۔لیکن وقت کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوگئی کہ امریکی حمایت وقتی اور مفادات سے جڑی ہوئی تھی۔ آج یوکرین کو شدید جنگی دباؤ کا سامنا ہے، اس کی معیشت کمزور ہو چکی ہے، لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں، اور عالمی سطح پر اس کے لیے وہ جوش و خروش نظر نہیں آ رہا جو پہلے تھا۔
دوسری طرف، روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی حکمت عملی اور خودمختاری کے اصولوں پر چلتے ہوئے جنگ میں اپنی پوزیشن مضبوط رکھی اور آج وہ ایک کامیاب جنگی حکمت کار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔یوکرین جنگ کے دوران ولادیمیر پیوٹن نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر کوئی ملک اپنی طاقت، دفاع، اور سفارتی حکمت عملی پر بھروسہ کرے تو وہ عالمی پابندیوں، سفارتی دباؤ، اور اقتصادی جنگوں کے باوجود بھی اپنی پوزیشن قائم رکھ سکتا ہے۔ مغربی ممالک نے روس پر بے شمار پابندیاں لگائیں، روسی معیشت کو مفلوج کرنے کی کوشش کی، اور یوکرین کو اسلحہ اور مالی امداد فراہم کی، لیکن پیوٹن نے اپنی جنگی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے نہ صرف جنگی محاذ پر کامیابی حاصل کی بلکہ روسی معیشت کو بھی سنبھالے رکھا۔ انہوں نے چین، بھارت، اور دیگر غیر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے، توانائی کی برآمدات کو جاری رکھا اور مغربی مالیاتی نظام کے متبادل نظام پر کام کیا۔پیوٹن کی اس کامیابی میں سب سے اہم عنصر خود انحصاری اور مضبوط دفاع تھا۔ انہوں نے اس بات پر انحصار نہیں کیا کہ دنیا ان کی حمایت کرے گی یا نہیں، بلکہ اپنی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے فیصلہ کیا اور اس پر قائم رہے۔ ان کا یہ رویہ ان تمام ممالک کے لیے سبق ہے جو عالمی طاقتوں کی مدد پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے فیصلوں پر چلتے ہیں۔
اگر ہم امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاست پر نظر ڈالیں تو وہ ایک بالکل مختلف حکمت عملی پر عمل پیرا رہے۔ ٹرمپ نے اپنی سیاست کسی بیرونی سہارے پر نہیں، بلکہ اپنی عوامی حمایت اور اندرونی طاقت پر استوار کی۔ انہوں نے امریکی اسٹیبلشمنٹ، عالمی اداروں، اور حتیٰ کہ اپنی ہی پارٹی کے کچھ حصوں کے خلاف مزاحمت کی، لیکن اپنی پوزیشن کو برقرار رکھا۔ ٹرمپ نے یہ ثابت کیا کہ اگر قیادت کے پاس داخلی استحکام اور خود اعتمادی ہو، تو وہ دباؤ کے باوجود اپنی جگہ بنا سکتی ہے۔
زیلنسکی کی موجودہ حالت ایک سبق ہے کہ عالمی سیاست میں کامیابی صرف انہیں حاصل ہوتی ہے جو خودمختاری اور داخلی استحکام پر یقین رکھتے ہیں۔ کوئی بھی ملک یا قیادت ہمیشہ دوسروں کے سہارے پر اپنی جنگ نہیں لڑ سکتی۔ طاقت کا اصل سرچشمہ بیرونی امداد نہیں بلکہ اندرونی خود انحصاری اور عوامی حمایت ہوتی ہے۔
یوکرین کی جنگ نے یہ بھی ثابت کیا کہ طاقتور ممالک چھوٹے اور کمزور ممالک کو محض اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتے ہیں، اور جب وہ اپنے مقاصد پورے کر لیتے ہیں، تو حمایت کمزور پڑ جاتی ہے۔امریکہ کے بدلتے رویے نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کرایا کہ حقیقی خودمختاری اور بقا کا دارومدار صرف اندرونی طاقت پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی بیرونی امداد یا وعدے پر۔یہی وہ نکتہ ہے جو تاریخ میں بار بار دہرایا گیا ہے۔چاہے وہ قدیم سلطنتوں کی جنگیں ہوں، یا جدید ریاستوں کے معرکے، وہی قیادتیں کامیاب رہتی ہیں جو اپنے زورِ بازو پر انحصار کرتی ہیں، نہ کہ دوسروں کے سہارے پر۔
یہی سبق پاکستان اور بھارت کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنے معاملات خود طے کریں، کیونکہ دنیا تماشہ دیکھتی ہے اور جو کچھ بھی مدد کے نام پر دیا جاتا ہے، وہ حقیقت میں مفادات کا کھیل ہوتا ہے۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں امریکہ نے سویت یونین کے خلاف اپنے مقاصد کو ''جہاد'' کا نام دے کر پاکستان اور افغانستان کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کا خمیازہ آج تک بھگتنا پڑ رہا ہے۔ امریکہ کے لیے یہ جنگ بس ایک شطرنج کا کھیل تھی، جس کے ذریعے اس نے سویت یونین کو تحلیل کروا کر خود دنیا کا واحد سپر پاور بننے کی راہ ہموار کر لی۔ لیکن اس کھیل میں پاکستان اور افغانستان کے حصے میں تباہی اور عدم استحکام آیا۔ امریکہ نے اپنے مقاصد کے لیے جنگ لڑوائی، سوویت یونین کو کمزور کیا، اور پھر جب کام ختم ہو گیا تو پاکستان اور افغانستان کو مسائل میں گھرا چھوڑ دیا۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو عرب ممالک سمیت تمام چھوٹے ممالک کو سیکھنا چاہیے کہ عالمی طاقتیں صرف اپنے مفادات کے لیے دوست بنتی ہیں، نہ کہ کسی کی بہتری کے لیے۔
آج اگر دنیا کے کسی بھی خطے میں حقیقی امن کا سوال کیا جائے تو اس کا جواب صرف ایک ہے۔ مضبوط دفاع اور خودکفالت کوئی بھی ملک قرضوں اور امداد کے سہارے نہ مستحکم ہو سکتا ہے، نہ ہی اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ کمزور ہمیشہ دوسروں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے، اور جب فیصلہ سازی کا وقت آتا ہے تو اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ یہی اصول عالمی سیاست پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ طاقتور ممالک ہمیشہ اپنے مفادات کی جنگ لڑتے ہیں، اور عالمی امن کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی کئی مسائل موجود ہیں، لیکن ان کا حل صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں ممالک اپنے فیصلے خود کریں۔ دنیا کے طاقتور ممالک ان کے تنازعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنے اسلحے کی فروخت، سفارتی دباؤ اور علاقائی چالوں کے ذریعے اپنی برتری قائم رکھتے ہیں۔ اگر جنوبی ایشیا میں واقعی دیرپا امن چاہیے تو اس کا راستہ خودمختاری، مضبوط دفاع، اور اقتصادی خودکفالت سے ہو کر گزرتا ہے، نہ کہ بیرونی امداد یا عالمی طاقتوں کی ثالثی سے۔پیوٹن کی حکمت عملی نے یہ واضح کر دیا ہے کہ عالمی سیاست میں وہی کامیاب ہوتا ہے جو اپنے فیصلے خود کرے، اپنی طاقت پر بھروسہ کرے اور دوسروں کی جنگ میں مہرہ نہ بنے۔ آج یوکرین مشکلات میں ہے کیونکہ اس نے مغرب اورامریکہ پر انحصار کیا، جبکہ روس اپنی طاقت کے سہارے کھڑا ہے اور کامیابی کی طرف بڑھ رہا ہے۔یہ وقت ہے کہ پاکستان، بھارت، اور دیگر علاقائی ممالک تاریخ سے سبق سیکھیں اور اپنے فیصلے خود کریں، کیونکہ کمزور ہمیشہ دوسروں کی جنگ کا ایندھن بنتا ہے، جبکہ طاقتور اپنی تقدیر خود لکھتا ہے۔
تبصرہ لکھیے