ہوم << جدید دور میں ادیب کا کردار۔ عصمت اسامہ

جدید دور میں ادیب کا کردار۔ عصمت اسامہ

علامہ اقبال نے فرمایا تھا:

خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوتِ لالہ و گل سے کلام پیدا کر

ایک ادیب اور لکھاری کا قلم معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے،وہ انسانیت کے مسائل کو سمجھتا ہے،وہ اپنی دماغ سوزی اور درد مندی سے ان مسائل کا حل تلاش کرتا ہے،وہ اپنی فکر_خام کو لفظوں میں پگھلا کر قلم سے قرطاس پر منتقل کرتا ہے،اس کی مقصدیت لوگوں کی سوچ کو بدلنے لگتی ہے،اس کا درد دل انسانیت کے زخموں کا مرہم بن جاتا ہےاور پھر وہ منزل آتی ہے کہ اس کے قلم پارے ،شہ پارے بن جاتے ہیں اور اس کے قلم کی تاثیر رنگ لے آتی ہے اور پھر یہ عالم ہوتا ہے کہ بقول شاعر

جس طرف بھی چل پڑے آبلہ پایان شوق
خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا!

موجودہ دور کمیونیکیشن سائینسز اور موبائل جرنلزم کا دور کہلاتا ہے ۔آپ کے ہاتھ میں جو اسمارٹ فون ہے ،آپ اس سے دعوت دین کا کام بآسانی کرسکتے ہیں۔بمطابق حدیث نبوی ﷺ: وبلغوا عنی ولو ایہ ” میری طرف سے ایک آیت بھی تمہیں پہنچے تو اسے آگے پہنچادو۔“ بحوالہ بخاری شریف۔

ایک چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ نے ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو آپ پودے لگائیں ،اگر آپ نے دس سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو درخت لگائیں لیکن اگر آپ نے صدیوں کی منصوبہ بندی کرنی ہے تو آپ افراد_کار تیار کریں تاکہ وہ اس کام کو پایہء تکمیل تک پہنچا سکیں۔

موجودہ صدی کو کتابوں سے عشق کی آخری صدی کہا جاتا ہے۔آئندہ دور میں کمیونیکیشن اسکلز کی اہمیت بہت بڑھ جاۓ گی۔ہمیں بحیثیت مسلمان ادیب ،یہ فکر ہونی چاہیے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو علم اور صلاحیتیں دی ہیں ،ہم انھیں کس طرح اللہ کے راستے میں استعمال کرسکتے ہیں۔ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے سیرت کا واقعہ بیان کیا ہے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ،عمرہءقضا کے سفر پر تھے۔ آپ اونٹنی پر سوار تھے اور اس کی مہار حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی۔آپ مکہ کی پہاڑیوں سے اتر رہے تھے ۔آپ کے قافلے کے زیادہ افراد لبیک پڑھ رہے تھے لیکن حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ ،رجزیہ شاعری پڑھ رہے تھے۔اس وقت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی نظر پڑی تو انھوں نے دور سے ہی حضرت عبداللہ کو چپ کرنے کو کہا۔ نبی کریم ﷺ نے انھیں دیکھ لیا تو اونٹنی کی پشت سے ان کو آواز لگائی کہ چھوڑو عمر، رہنے دو، اس کے اشعار تو مشرکین کے سینوں میں لگ رہے ہیں ۔نبی کریم ﷺ نے اپنے دور کے ذرائع ابلاغ کو ہتھیار کے طور پر بھی استعمال کیا ،آپ نے کفار کے پروپیگنڈہ کا جواب دینے کے لیے،ناموس رسالت کا دفاع کرنے کے لیے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اپنے اشعار سے کفار کے پروپیگنڈہ کا توڑ کریں. اگر چہ فتح مکہ کے بعد آپ نے توہین رسالت کے مجرموں کو تلوار سے قتل کرنے کا حکم بھی دیا۔ ہر جنگ کے اپنے جرنیل ہوتے ہیں۔

قوموں کے عروج و زوال میں بھی ادب نے نہایت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ادیب کسی بھی قوم سے تعلق رکھنے ،وہ اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ قیام پاکستان کی جدوجہد میں ادیبوں اور دانشوروں نے تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ایک ادیب اپنے خوابوں کو دوسروں تک منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ علامہ اقبال کا قلم ،قیام پاکستان کی منزل کا رہبر ثابت ہوا۔اسی طرح سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کی تحریر کردہ کتب نے لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا ۔آپ نے اپنی کتاب ” ادب میں تغیرات اور معاشرت میں اس کی اثر انگیزی“ میں لکھا ہے : ” لٹریچر یعنی ادب ،پیش قدمی کرتا ہے ،رائے عامہ اس کے پیچھے آتی ہے ،آخر میں اجتماعی اخلاق،سوسائٹی کے ضوابط اور حکومت کے قوانین سب اس کے تابع ہوجاتے ہیں.“ ایک اور تصنیف میں انھوں نے لکھا:” ہمارے نزدیک ایک مسلم ادیب کے لیے اظہارِ رائے محض حسن اور ذوقِ جمال، تفریح کا ذریعہ نہیں ہوسکتا کیوں کہ وہ اس بات کا ادراک رکھتا ہے اور اسے ادراک رکھنا بھی چاہئیے کہ اس کے قلمی رحجانات ،عنوانات،نسل اور سماج کی صورت گری کر رہے ہیں جو معاشرے کی سوچ ،فکر اور طرزِ زندگی پر لامحالہ اثر انداز ہوتے ہیں.“

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس کواس حالت میں موت آگئی کہ وہ اسلام کو زندہ کرنے کی نیت سے علم حاصل کر رہا تھا تو جنت کے اندر اس کے اور انبیائے کرام کے درمیان صرف ایک درجہ کا فاصلہ ہوگا۔ (بحوالہ مشکو’ۃ شریف ،جلد اول). قرآن پاک میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے کہ جب اللہ تعالٰی نے ان کو فرعون کے دربار میں جاکر اللہ کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا تو انھوں نے اپنے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے نبوت طلب کی کیوں کہ انھیں احساس تھا کہ بھائی اس پیغام کو زیادہ موثر زبان میں پہنچاسکے گا ۔

ادیب کو اعلیٰ ظرف ہونا چاہیے ،کسی کی تنقید پر صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے ،اسے مخالف کے زاویہء نگاہ کا ادراک ہونا چاہیے۔حالات حاضرہ پر ری ایکشن دینے کی بجائے اسے پروایکٹو ہونا چاہیے تاکہ معاملات کی پیشگی منصوبہ بندی کرسکے۔ اسے کسی مسئلہ پر قلم اٹھانے سے قبل تحقیق کرلینی بھی ضروری ہے تاکہ وہ افواہوں اور جھوٹی اطلاعات سے بچ سکے ۔اسے اپنی تہذیب اور معاشرتی روایات کی پاسداری بھی کرنی چاہیے ۔بقول شاعر

کبھی کھل کے لکھ جو گذر رہا ہے زمین پر
کبھی قرض بھی تو اتار اپنی زمین کا !

Comments

Avatar photo

عصمت اسامہ

عصمت اسامہ کالم نگار ،بلاگر اور مصنفہ ہیں۔ انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا ہے۔ کتاب "سنہرے حروف" شائع ہوئی ہے۔ لکھنے کا آغاز کالج دور سے کیا۔ کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے ایوارڈز اور مقابلہ جات میں اسناد اور انعامات حاصل کر چکی ہیں۔ اخبارات کے علاوہ افواج پاکستان کے " ہلال میگزین" میں لکھتی ہیں

Click here to post a comment