عام طور پر دیکھنے میں آتا ہے کہ ہم نوعمر بچوں کو جیب خرچ یا عیدی وغیرہ تو دیتے ہیں لیکن ان پیسوں کو کیسے خرچ کرنا زیادہ بہتر ہے، اس معاملے میں رہنمائی یا مشورہ دینا ضروری نہیں سمجھتے. جبکہ سوچا جائے تو بچوں کی ابتدائی زندگی کی یہی عادات انھیں بہترین زندگی گزارنے میں مددگار ہو سکتی ہیں.
اس لیے جب بھی بچوں کے پاس عیدی وغیرہ کے پیسے جمع ہوں تو انہیں سکھایا جائے کہ ان پیسوں کو تین حصوں میں خرچ کرنا ان کے لیے بہترین ہے.
سب سے پہلا حِصہ : صدقہ خیرات ، یا کسی فلاحی کام میں فی سبیل الّلہ خرچ کرنا
دوسرا حِصہ : اپنی مرضی کی چیزیں خریدنا
تیسرا : بچت ، یعنی یہ تیسرا حِصہ Money Box میں ڈال دیا جائے
اس کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ انھیں تین Money Box (گُلَک) لا دیں اور اُن سے کہیں کہ تینوں پر چھوٹی چھوٹی پرچیاں لگا لیں
ایک پر لکھیں ، چیریٹی
دوسرے پر My Money
اور تیسرے پر سیونگز
پھر اس کے بعد انھیں روزانہ یا ہفتہ وار جیسے بھی پاکٹ منی دیں، وہ انھیں کہیں کہ تینوں باکسز میں تقسیم کر کے ڈال دیا کریں.
اس سے ایک تو اُنہیں یہ سمجھ آئے گی کہ مقررہ رقم میں کیا خریدنا اور کیا چھوڑنا ہے . وہ اپنی ضروریات اور خواہشات میں فرق سمجھ سکیں گے. ان کے دل میں ان لوگوں کا احساس پیدا ہو گا جو چاہنے کے باوجود بہت سی چیزیں حاصل نہیں کر پاتے. وہ یہ بھی سمجھ سکیں گے کہ ضروری نہیں ہر پسند آنے والی چیز کو اگلے ہی لمحے خرید لیا جائے، بلکہ اگر کسی وجہ سے ایسا نہ بھی ممکن ہو تو کچھ انتظارمیں بھی کوئی حرج نہیں. اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ دن بعد ان کی ترجیح بدل جائے اور وہ چیز پسند ہی نہ رہے. لیکن اس سب کے لیے پہلے آپ کو ان کے سامنے جینٹل شاپنگ کی مثال پیش کرنی پڑے گی . آپ کی اپنی مثال سے آپ کو انھیں زیادہ بتانا یا سکھانا نہیں پڑے گا بلکہ وہ دیکھ کر ہی یہ سب سیکھ جائیں گے.
تو پھر کیا یہ جا سکتا ہے کہ خریداری کرتے ہوئے آپ انھیں ساتھ لے کر جائیں تاکہ وہ آپ کو بھاؤ تاؤ کرتا دیکھیں، قیمتوں کا موازنہ سیکھیں ، وہ یہ سمجھ سکیں کہ سستی لیکن معیاری اشیاء کا انتخاب کرنا بہتر ہے بجائے مہنگی لیکن غیر معیاری چیزوں کے. انھیں بڑے سٹورز پر سیل اور پروموشنز کے فائدے اور نقصان سمجھ آئیں کہ محض سیل کا نام سن کر ڈھیر ساری غیر ضروری اشیاء اکھٹی کر لینا عقلمندی نہیں، اور سیل سے بھی ہمیشہ دیکھ بھال کر ہی خریداری کی جائے گی تاکہ ان کی رف سٹوریج نکالنے کا شکار نہ بن جائیں.
الّلہ کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی احادیث اور قرآنی آیات کے ذریعے بچوں کے ذہن میں یہ سوچ پختہ کر دیں کہ الّلہ کے رستے میں دیے گئے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ وہ زیادہ ہی ہوتا رہتا ہے. اس معاملے میں بھی سب سے پہلے خود کو مثال بناتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ مختلف فلاحی اداروں ، یتیم خانوں یا ہاسپٹلز وغیرہ میں لے کر جائیں. وہاں وہ دیکھیں کہ لوگ خوراک ، رہائش یا علاج کی سہولیات کے لیے کس قدر محتاج نظر آتے ہیں، اس سے بچوں کو نہ صرف ان سے ہمدردی اور خوفِ خدا حاصل ہو گا بلکہ اپنی موجود حالت پر شُکر کرتے ہوئے ان کی امداد کرتے ہوئے بھی خوشی محسوس کریں گے. اس کے علاوہ آج کل افطاری کا اہتمام کرتے ہوئے انھیں ساتھ رکھیں اور بتاتے جائیں کہ روزے دار کی افطاری کروانے پر الّلہ کریم کس قدر خوش ہوتے ہیں. ساتھ ہی بچوں سے عید پر مستحقین کے لیے بھی خصوصاً خریداری کروائیں تاکہ وہ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ہماری اصل خوشی الّلہ کی مخلوق کی خوشی میں ہے، اور یہی وہ خوشی ہے جو ان شاءالّلہ آخرت میں ہمیں بے شمار کر کے لوٹائی جائے گی.
تبصرہ لکھیے