راجر پینروز (Roger Penrose) مشہور برطانوی سائنسدان اور فلسفی ہیں۔ یہ 8 اگست 1931 کو انگلینڈ میں پیدا ہوئے،والدین یہودی تھے، اور 1880 میں روس کے شہر سینٹ پیٹرزبرگ سے ہجرت کر کے برطانیہ شفٹ ہوئے تھے۔ والد لیونل پینروز نفسیات اور جینیات کے ماہرتھے اور دادا جے ڈویل پینروز آئرش نژاد آرٹسٹ تھے۔والدہ کی طرف سے بھی سارا خاندان سائنس سے جڑا تھا اور یوں راجر کو بچپن سے ہی علم اور سائنس سے جڑا ماحول میسر تھا۔اس ماحول نے راجر کو اپنے عہد کا عظیم سائنسدان بنادیا اور آج راجر کاشمار ان چند سائنس دانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے طبیعیات ،ریاضیات اور فلسفہء شعور کے بنیادی تصورات میں انقلابی تبدیلیاں متعارف کروائیں۔راجر کی تحقیق کا دائرہ عمومی اضافیت، کوانٹم میکینکس اور شعور کی سائنس جیسے پیچیدہ موضوعات تک پھیلا ہوا ہے۔ بلیک ہولز کی سنگولیرٹیز کے حوالے سے ان کے ریاضیاتی ثبوت اس نظریے کو تقویت دیتے ہیں کہ آئن سٹائن کا عمومی نظریہ اضافیت بلیک ہولز کی ناگزیریت کی تصدیق کرتا ہے۔ اس تحقیق کو بعد میں سٹیفن ہاکنگ نے مزید وسعت دی اور اس سے کائنات کی ابتدا کے حوالے سے نظریات کو ایک نئی سمت ملی۔
راجر پینروز کی دلچسپی صرف طبیعیات تک محدود نہیں بلکہ انہوں نے فلسفہء شعور پر بھی نئے نظریات پیش کیے۔ انہوں نے مشہور امریکی سائنسدان اسٹورٹ ہیمروف کے ساتھ مل کر ’’کوانٹم کانشسنیس‘‘ تھیوری پیش کی جس کے مطابق انسانی شعور محض نیورونز کی سرگرمی کا نتیجہ نہیں بلکہ کوانٹم میکینکس سے جڑا ہوا ایک پیچیدہ مظہر ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسانی دماغ کے نیورونز میں موجود مائیکرو ٹیوبلس نامی نانوسٹرکچرز میں کوانٹم سطح پر کمپیوٹیشن ہوتی ہے جس سے شعور پیدا ہوتا ہے۔ یہ نظریہ شعور کے بارے میں مروجہ سائنسی تصورات سے مختلف ہے کیونکہ اس میں شعور کو ایک مجرد کوانٹم مظہر کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو موت کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے۔
راجر پینروز اور ہیمروف کی تحقیق کے مطابق جب انسان مرتا ہے تو شعور کے یہ کوانٹم اجزا کائنات میں بکھر جاتے ہیں۔ اگر کسی طرح انسان دوبارہ زندہ ہو جائے تو یہ شعوردوبارہ واپس آسکتا اوردوبارہ متحرک ہو سکتا ہے۔ یعنی شعور محض مادی اجزا کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک آزاد حقیقت ہے جو مرنے کے بعد بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود رہ سکتی ہے۔ اسی بات کی تصدیق قرآ ن کی وہ آیات کرتی ہیں جن میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کہتا ہے :’’اور جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے ہوش اڑ جائیں گیاور جب دوبارہ صور پھونکا جائے گا تو سب اچانک دیکھتے ہوئے کھڑے ہو جائیں گے۔‘‘
جدید سائنس میں مرنے کے قریب تجربات پر بھی کافی تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف طبی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کئی ایسے افراد جنہیں طبی لحاظ سے مردہ قرار دیا جا چکا تھا، انہوں نے ہوش میں واپس آنے کے بعد حیران کن تجربات بیان کیے۔ ان میں خود کو جسم سے باہر محسوس کرنے اور اپنے ماضی کی جھلکیاں دیکھنے جیسے واقعات شامل ہیں۔ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ کچھ مریض جن کے دل کی دھڑکن رک گئی تھی وہ موت کے بعد بھی اپنے اردگرد کے حالات کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ یہ تحقیقات اس نظریے کی تائید کرتی ہیں کہ موت کے بعد شعور کا مکمل خاتمہ نہیں ہوتا بلکہ وہ کسی نہ کسی شکل میں باقی رہتا ہے۔ قرآن بھی یہی کہتا ہے: ’’جب ان میں سے کسی کی موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے: اے میرے رب! مجھے واپس لوٹا دے۔‘‘کینیڈا میں کی گئی ایک طبی تحقیق میں ایک مریض کے دماغی سگنلز کا تجزیہ کیا گیا جسے مرگی کے شدید دورے کے بعد ہارٹ اٹیک ہوا تھا۔ جب اس کا دل بند ہواتو عام تصور کے مطابق یہ فرض کر لیا گیا کہ اس کی دماغی سرگرمی رک گئی ہے لیکن اسکینر نے دکھایا کہ مریض کا دماغ ایک خاص پیٹرن میں متحرک تھا جو بالکل اسی طرح تھا جب کوئی شخص اپنے ماضی کے واقعات کو یاد کر رہا ہو۔ یہ سائنسی دریافت قرآن کی اس آیت سے مشابہ معلوم ہوتی ہے: ’’اے میرے رب! مجھے واپس لوٹا دے تاکہ میں وہ نیک عمل کروں جو میں چھوڑ آیا تھا۔‘‘
کوانٹم میکینکس اور بائیو سینٹرزم جیسے جدید سائنسی نظریات نے بھی زندگی اور شعور کے تسلسل کے امکان پر روشنی ڈالی ہے۔ بائیو سینٹرزم کے مطابق زندگی اور شعور ہی کائنات کے بنیادی اجزا ہیں اور وقت و مکان ہمارے شعور کی پیداوار ہیں۔ اس کے مطابق موت کے بعد بھی شعور کسی اور جہت (dimension) میں جاری رہ سکتا ہے۔ کوانٹم فزکس کے کئی تجربات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ذرّات مشاہدے کے بغیر اپنی کوئی معین حالت نہیں رکھتے جس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ شعور ہی مادی حقیقت کو متعین کرتا ہے۔ اگر یہ تصور درست ہے تو اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ موت کے بعد ہمارا شعور کسی اور حالت میں باقی رہ سکتا ہے۔اس کے علاوہ جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت میں ہونے والی ترقی نے بھی شعور کو ڈیجیٹل طور پر محفوظ کرنے کے امکانات کو جنم دیا ہے۔ایلون مسک کے نیورالنک جیسے منصوبے انسانی دماغ کے سگنلز کو ڈیجیٹل فارمیٹ میں محفوظ کرنے پر کام کر رہے ہیں۔ کچھ ماہرین کے مطابق مستقبل میں انسانی شعور کو مصنوعی ذہانت میں ٹرانسفر کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے انسان اپنی شخصیت اور یادداشت کو موت کے بعد بھی برقرار رکھ سکے گا۔ یہ سائنسی تصورات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موت زندگی کا مکمل خاتمہ نہیں بلکہ کسی نئی حقیقت میں داخل ہونے کا ایک دروازہ ہے۔ قرآن کہتا ہے: ’’اور وہ کہیں گے! ہائے ہماری کم بختی! کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھا دیا؟ یہی تو وہ چیز ہے جس کا رحمٰن نے وعدہ کیا تھا اور رسولوں نے سچ کہا تھا۔‘‘
اگرچہ سائنس ابھی تک اس نتیجے پر نہیں پہنچی کہ موت کے بعد زندگی کسی نہ کسی شکل میں لازماً موجود ہے لیکن مختلف سائنسی تحقیقات اس امکان کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کرتیں۔ نیوروسائنس، کوانٹم فزکس اور بائیو سینٹرزم جیسے سائنسی نظریات اس تصور کو تقویت دیتے ہیں کہ شعور موت کے بعد بھی کسی اور جہت میں برقرار رہ سکتا ہے۔ قرآن یہ حقیقت ساڑھے چودہ سو سال پہلے بیان کر چکا ہے کہ انسان مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور اس کے اعمال کا حساب ہوگا۔
تبصرہ لکھیے