کامیابی کی تو سب بات کرتے ہیں کہ یہ کیسے حاصل کی جا سکتی ہے ـ کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکی ہیں جن میں کامیابی کے گُر بھی بتائے جاتے ہیں. لیکن ہمیں کوئی یہ نہیں بتاتا' نہ ہی سکھاتا ہے کہ ہم نے ناکامی کے بعد خود کو کیسے سنبھالنا ہے ' اپنی ہمت اور توانائی کو کیسے یکجا کرنا ہے. زندگی کی دوڑ میں بھاگتے بھاگتے جب تھک جائیں تو کیسے خود کو پُرسکون رکھنا ہے. جب ہر طرف ناکامیاں ہوں' ہر کام الٹا ہو جائے' نقصان در نقصان ہو تو مایوس نہیں ہونا' نہ ہی ٹوٹ کر بکھرنا ہے بلکہ خود کو تازہ دم کر کے اُس گرداب یا بھنور سے باہر نکلنے کا سوچنا ہے اوریہ سب کیسے کرنا ہے ؟
سب کی زندگی میں مشکل ا دوار آتے ہیں ' ہر دن کا چڑھتا سورج نئے چیلنجز یا مسائل لے کر ابھرتا ہے. پوری دنیا میں ایسا کوئی شخص نہیں نہ ہی ایسا کوئی شعبہ ہے جس میں مشکلات یا پریشانیاں نہ ہوں 'ہاں ان سب کی نوعیت اور نمٹنے کا طریقہ مختلف ہو سکتا ہے. ہمیں ناکامی سے ڈرنا نہیں چاہیے بلکہ اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے خود کو تیار رکھنا چاہیے. ناکامی کا سامنا کس کو نہیں ہوتا اگر ہم جائزہ لیں تو کئی مثالیں ہمیں اپنے اردگرد مل جائیں گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم کامیاب لوگوں کی کامرانیاں تو دیکھتے ہیں لیکن ان کی محنت و ریاضت اور ناکامیاں نظر انداز کر دیتے ہیں. پھر ہم خود کا موازنہ ان سے کرنا اور پھر خود کو کوسنا اور اپنی قسمت کو دوش دینا شروع کر دیتے ہیں.
حالات ہمارے ہاتھ میں نہیں ہوتے لیکن ہماری سوچ ہمارے اپنے اختیار میں ہوتی ہے اس لیے ہمیشہ سوچ اور رویہ مثبت ہی رکھنا چاہیے. ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب بھی ہم کوئی کام شروع کرتے ہیں یا نیا کاروبار کرتے ہیں تو سب سے پہلے سوچ ہی ہمارے ذہن میں آتی ہے اور اپنے ساتھ ناکامی یا ڈر کی سوچ بھی ساتھ لاتی ہے. پھر وسوسے ہمیں گھیر لیتے ہیں کہ پتہ نہیں ہم یہ کام کر سکیں گے یا نہیں ' اگر ناکام ہو گئے تو کیا ہوگا ؟ لوگ کیا کہیں گے ؟ نئی نوکری کرنے جاتے ہیں تب بھی ایسے ہی خیالات ہمارے دماغ میں پنجے گاڑ کر بیٹھ جاتے ہیں. اب یہ ہم اور ہماری سوچ پر منحصر ہے کہ ہم ان وسوسوں کا شکار ہو تے ہیں یا ان کے شکنجے سے باہر نکلنے کی تدبیر کرتے ہیں.
ناکامی کا دراصل کوئی وجود ہے ہی نہیں کیونکہ یہ تو کامیابی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہم اپنے تجربات سے سیکھتے ہوئے ہی آگے بڑھتے ہیں. ہم میں سے کوئی بھی سب کچھ سیکھ کر پیدا نہیں ہوتا حتٰی کہ بولنا' کھانا' پینا' چلنا' چیزوں کو سمجھنا بھی ہم پیدا ہونے کے بعد ہی سیکھتے ہیں اور کئی بار چلتے ہوئے گرتے ہیں. تو کیا ہم گرنے کے ڈر سے چلنا چھوڑ دیتے ہیں ؟ اسی طرح بہت ساری غلطیاں کرتے ہیں تو کیا اس ڈر سے کچھ کرنا چھوڑ دیں ؟ نہیں ہم اپنی کی گئی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرتے ہیں. اہم بات یہ ہے کہ اپنی سوچ کو ہمیشہ مثبت رکھیں، کیونکہ ہماری سوچ ہمیں حالات سے لڑنا سیکھاتی ہے. برے سے برے حالات میں سے بھی کچھ اچھا نکال لینا ہی اہم ہے. اپنے دیکھنے کا زاویہ یا عدسہ تبدیل کر لیں ـ زندگی آسان ہو جائے گی. ہمیشہ یاد رکھیں کہ ناکام ہونا ہماری زندگی کا اختتام کبھی نہیں ہوتا.
گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں
طفل کیا کرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے
بالفرض آپ ناکام ہو گئے ہیں پھر اب اس صورتحال سے کیسے باہر نکلنا ہے.
سب سے پہلے تو یہ سوچیں کہ زندگی ختم نہیں ہو گئی. اپنی سوچ کو مثبت رکھیں.ٹھنڈے دماغ سے جائزہ لیں کہ غلطی کہاں ہوئی ہے یا کہاں کمی بیشی رہ گئی تھی. بغور تجزیہ کریں کہ ناکام ہوئے کیوں ؟ پھر دوبارہ سے حکمتِ عملی تیار کریں. سب سے اہم اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو ماننا یا گلے لگانا ہے. کامیابی فوراً نہیں مل جاتی اور کئی بار سالہاسال کی محنت و ریاضت کے باوجود نہیں ملتی، کیونکہ قدرت کا بھی اپنا نظام ہے ہر چیز اور مقام اس کے حکم سے مقررہ وقت پر ہی ملتا ہے ' نہ کم نہ زیادہ. کئی بار ہم غلط سمت میں اپنی طاقت اور توانائی ضائع کر رہے ہوتے ہیں جس کا ہمیں اس وقت ادراک نہیں ہو پاتا. یا پھر ہماری منصوبہ بندی یا حکمتِ عملی ٹھیک نہیں ہوتی جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو پاتے.
ہمارا اس متعلقہ شعبہ میں علم و تجربہ ناکافی بھی ہو سکتا ہے اس لیے کسی تجربہ کار سے رہنمائی لے لینے میں کوئی حرج نہیں. جو لوگ اس میدان میں کامیاب ہیں ' ماہر ہیں ان سے بات کریں ' ان کے ساتھ وقت گزاریں تاکہ ہم ان سے سیکھ سکیں. اپنے اردگرد حوصلہ بڑھانے والے لوگوں کو بڑھائیں تاکہ وہ آپ کا حوصلہ ٹوٹنے نہ دیں. ہمارا اٹھنا بیٹھنا مثبت سوچ کے حامل لوگوں کے ساتھ ہونا چاہیے اور حلقہ احباب میں ایسے لوگ ہونے چاہییں جو ہمارے ساتھ مخلص ہوں. سب سے بڑھ کر جن سے آپ دل کی بات کر سکیں اور وہ آپ کو گرانے کے بجائے ہمت بڑھانے کا کام کریں. آپ کی کامیابی سے حسد نہ کریں بلکہ تھپکی دیں. جب کچھ کرنے کی ٹھان لیں تو ڈٹ جائیں اور آنے والی مشکلات سے نہ گھبرائیں بلکہ ہمیں ان سے لطف اندوز ہونا چاہیے، یہی تو زندگی کا حسن ہیں جو ہماری بے رنگ زندگی میں رنگ بکھیرتی ہیں اور ہمیں متحرک رکھتی ہیں.
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
منزل کے راستے ہمیشہ کٹھن ہی ہوتے ہیں. پھر مقصد کوئی بھی ہو ، ایک ہی جھٹکے میں حاصل نہیں ہو جاتا ، ایک طویل مسافت طے کرنی پڑتی ہے. اپنے ارادے میں فولاد جیسی مضبوطی پیدا کریں کیونکہ مشکل وقت میں یہی مضبوط ہتھیار ہوتا ہے.ہمت کبھی بھی نہیں ہارنی چاہیے. کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنے مقاصد کو چھوٹے اور بڑے حصوں میں تقسیم کر لیں اور ہر چھوٹی سے چھوٹی کامیابی یا اٹھنے والے قدم کو سراہیں، خود کو شاباش دیں، شکر ادا کریں. جب ہم شکر گزاری بڑھا دیتے ہیں تو ہم اندر سے مطمئن ہو جاتے ہیں.
کبھی بھی اپنی صلاحیتوں پر خود پر شک نہ کریں. قدرت نے ہم سب کو مختلف بنایا ہے اور منفرد قابلیت بھی عطا کی ہے جس کو جاننا اور بروئے کار لانا اب ہم پر منحصر ہے،سوچیں، سمجھیں اور اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں. زندگی ہمیں مختلف ادوار سے گزار کر سبق سکھاتی ہے، بس سیکھتے جائیں اور آگے بڑھتے جائیں، یہی کامیابی کا راز ہے، لیکن کی گئی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرائیں. کبھی بھی ہمت نہ ہاریں اور چلتے جائیں، جب تک منزل نہ آ جائے. جب مقصد حاصل ہو جائے تو نئے آسمان کی تلاش میں نکل جائیں.
جب ہم ہارتے ہیں یا ناکام ہوتے ہیں، تب بھی ہمارے اندر امید باقی ہونی چاہیے، یہی ہماری جیت ہے. جب ہم اپنی ناکامی سے سیکھتے ہیں تو یہی ہماری کامیابی ہوتی ہے. جیتنا یا کامیاب ہونا ہمیشہ وہ نہیں ہوتا جو ہم چاہتے ہیں، بلکہ اپنی پوری توانائی لگانا اور درست سمت میں پیش قدمی کرنا ہی اصل جیت ہوتی ہے. ظاہر ہے ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے لیکن اصل بات تو محنت کی ہے، سیکھنے کی ہے، اگر ہم اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں، نیا سیکھ رہے ہیں اور آگے بڑھ رہے ہیں تو ہم کامیاب ہیں . دوسروں کی جیت کو محسوس کرنا سیکھیں، ان کی خوشی میں شریک ہوں اور دوبارہ سے نئی لگن سے محنت شروع کر دیں، نئے ہدف کے ساتھ، نئے جوش و ولولے کے ساتھ . خوش رہیں، خوشیاں اور آسانیاں بانٹنے والے بنیں.
تبصرہ لکھیے