دوستی انسان کی زندگی کا ایک نہایت قیمتی خزانہ ہے، جو نہ صرف خوشیوں کے لمحوں کو بڑھا دیتی ہے بلکہ دکھ درد میں بھی ایک مضبوط سہارا بنتی ہے۔ یہ رشتہ خلوص، محبت، اور ایک دوسرے کے ساتھ گزرے بے شمار پلوں کا گواہ ہوتا ہے۔ لیکن جب انسان پختگی کے سفر پر قدم رکھتا ہے، تو دوستیوں کا رنگ بھی تبدیل ہونے لگتا ہے۔ اور کبھی کبھار یہ تبدیلی اتنی گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہے کہ پورا رشتہ ہی متزلزل ہو جاتا ہے۔
پرانے دوستوں کے ساتھ جڑی یادیں وہ لمحے ہوتے ہیں جب زندگی سادہ تھی، جب ہر دن کا آغاز اور اختتام ہنسی مذاق، بے فکری، اور محبت کے بیچ ہوتا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے دکھوں میں شریک ہو کر انہیں ہلکا کرنے کی کوشش کی، اور کامیابیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ خوشی منائی۔ لیکن جب انسان پختگی کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، تو اس کی نظر میں زندگی کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ اب وہ چیزیں جو کبھی بہت اہم تھیں، وہ اب اتنی ضروری نہیں لگتیں، اور وہ لوگ جو کبھی سب کچھ تھے، اب ان کے لیے دل میں اتنی جگہ نہیں رہتی۔
پختگی ایک ایسی حالت ہے جہاں انسان کی ترجیحات بدلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جہاں اس کی زندگی کی سمت اور اس کے ارادے نئے ہو جاتے ہیں، وہاں پرانے تعلقات اور یادیں محض ایک بوجھ بن کر رہ جاتی ہیں۔ دوستوں کے ساتھ وہ پرانا بے تکلف رویہ، وہ باتوں کا آزادانہ تبادلہ، اور وہ لمحے جو ہم نے بے شمار بار ایک دوسرے کے ساتھ گزارے، اب وہ سب دھندلے پڑنے لگتے ہیں۔ پختہ سوچ اور ذاتی اہداف کی تکمیل میں اتنی تیزی آ جاتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اتنا مصروف محسوس کرتا ہے کہ ان دوستوں کے لیے اس کے پاس وقت کم پڑنے لگتا ہے۔
یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ہم اپنے دوستوں کو کم سے کم وقت دینے لگتے ہیں، اور وہ بھی اپنی نئی ترجیحات کے تحت ہماری موجودگی کو کم محسوس کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں، اور پھر ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ محبتیں اور وہ رشتہ صرف یادوں کی شکل میں باقی رہ جاتا ہے۔ اور ہم یہ سوچ کر افسوس کرتے ہیں کہ وہ وقت اور وہ تعلق کہاں گئے جب سب کچھ اتنا بے تکلف تھا، جب ہر لمحہ کا لطف اٹھانا ممکن تھا۔
پختگی کے اس مرحلے میں دوستیوں کا خاتمہ ایک تلخ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے، لیکن یہ حقیقت ہمارے لیے اتنی دردناک ہوتی ہے کہ ہم اس کا سامنا نہیں کر پاتے۔ ایک ایسا رشتہ جس میں کبھی ہم نے اپنی ساری خوشیاں اور غم بانٹے تھے، اب وہ رشتہ ماضی کا حصہ بن چکا ہوتا ہے، اور دل میں یہ سوال ابھرتا ہے: کیا ہم واقعی ایک دوسرے سے اتنی دور ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت نہیں؟ کیا یہ وہی دوستی ہے جو ہم نے کبھی اپنی زندگی کے سب سے حسین دنوں میں جیتی تھی؟
یہ حقیقت شاید سب سے زیادہ دل کو ٹوٹنے والی ہوتی ہے، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پختگی کی وجہ سے ہم نے اپنے بہترین دوستوں کو چھوڑ دیا ہے، اور ان کے ساتھ وہ جوڑ جو کبھی ہمارے لیے سب سے مضبوط تھا، اب ہم نے خود ہی توڑ دیا۔ ہم یہ تسلیم کرنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ وقت اور حالات کی تبدیلیوں نے ہمارے تعلقات کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنا دور ہو چکے ہیں کہ دوبارہ جڑنا ناممکن لگتا ہے۔
پرانے دوستوں کے ساتھ رشتہ کی یہ گہری خالی جگہ ہمیں اکثر اندر سے کچوکے دیتی ہے۔ جب ہم ان کو یاد کرتے ہیں، تو دل میں ایک درد کی لہر اُٹھتی ہے، اور آنکھوں میں ادھورے لمحوں کی تصویر جھلکنے لگتی ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ شاید ہم نے ان کا ساتھ چھوڑ کر کچھ بہت اہم کھو دیا ہے، اور اب وہ لمحے کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
آخری طور پر، یہ کہنا کہ دوستی کا خاتمہ صرف پختگی کی وجہ سے ہوتا ہے، یہ کہنا غلط ہوگا۔ دراصل، یہ وہ حقیقت ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ زندگی کے سفر میں، ہر رشتہ اور ہر تعلق ایک خاص وقت تک ہوتا ہے۔ کبھی کبھار، جب پختگی آتی ہے، تو یہ ہمیں وہ دکھ دیتی ہے جو ہم نے کھو دیا، اور وہ لمحے ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ زندگی میں کبھی کبھار ہمیں ماضی کی قیمت پر نئے راستوں کو اختیار کرنا پڑتا ہے۔ اور پھر یہ سوچ کر دل دکھتا ہے کہ شاید ہم نے کچھ بہت قیمتی کھو دیا ہے، جو کبھی واپس نہیں آ سکتا۔
تبصرہ لکھیے