ہوم << جنگ کے سائے میں رمضان - عبیداللہ فاروق

جنگ کے سائے میں رمضان - عبیداللہ فاروق

رمضان… برکتوں، رحمتوں اور مغفرت کا مہینہ! یہ وہ مہینہ ہے جب دنیا بھر کے مسلمان روحانی بالیدگی کے لیے روزے رکھتے ہیں، عبادات میں مصروف ہوتے ہیں، اور اللہ کے حضور سر بسجود ہوکر مغفرت کے طلبگار بنتے ہیں۔ لیکن غزہ کے مظلوم مسلمانوں کے لیے یہ رمضان کوئی عام رمضان نہیں، بلکہ ایک اور کڑی آزمائش کا مہینہ ہے.بھوک، پیاس، ملبے کے ڈھیر، اور بمباری کے سائے میں گزرتا ہوا رمضان!

دنیا کے مختلف خطوں میں سحری و افطار کے مزے لوٹنے والے شاید تصور بھی نہ کر سکیں کہ غزہ کے مکین کس حال میں روزہ رکھتے اور کھولتے ہیں۔ وہ لوگ جو کل تک اپنے گھروں کے دسترخوانوں پر سحری کرتے تھے، آج ملبے پر بیٹھ کر چند نوالوں کے لیے ترس رہے ہیں۔ جن گھروں میں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، آج وہاں بارود کی بو اور چیخوں کی گونج ہے۔یہی تو وہ رمضان ہے جس کے سحر و افطار میں گولیوں کی آوازیں اذان کے ساتھ گونجتی ہیں۔ جس کی تراویح میں نمازی زمین پر گرتے ہیں، لیکن نمازی کم اور شہید زیادہ شمار ہوتے ہیں۔ جس کی راتیں نیند اور آرام کی بجائے خوف اور اضطراب میں گزرتی ہیں۔

غزہ: ایک عظیم صبر کا استعارہ
ایسا نہیں کہ غزہ کے لوگوں کے پاس اختیار نہیں، لیکن ان کے اختیار میں بس صبر ہے! ان کے پاس وسائل نہیں، لیکن حوصلہ ہے! ان کے پاس عالیشان مساجد نہیں رہیں، لیکن ان کے دل اللہ کے گھر بن چکے ہیں! وہ فاقے سہہ کر بھی شکر ادا کرتے ہیں، وہ گولیوں اور بموں کے سائے میں بھی روزہ رکھتے ہیں۔یہ وہی امت مسلمہ ہے جس کے اجسام تو ٹکڑوں میں بٹ رہے ہیں، مگر ان کے ایمان کی مضبوطی کو کوئی زلزلہ ہلا نہیں سکتا۔ یہ وہی امت ہے جو روزے کے ساتھ ساتھ اپنی امیدوں کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جو آج بے گھر ہے، مگر یقین رکھتی ہے کہ اللہ انہیں ان کے گھروں سے بہتر جگہ عطا کرے گا۔ جو آج بھوکی ہے، مگر اس یقین کے ساتھ سحری کرتی ہے کہ جنت کے خوان اس کے منتظر ہیں۔

امتِ مسلمہ کے لیے لمحۂ فکریہ
یہ رمضان ہمیں صبر، شکر اور قربانی کا درس دیتا ہے، مگر کیا ہم نے واقعی اس درس کو سمجھا ہے؟ کیا ہم نے غزہ کے مجبور مسلمانوں کے لیے کچھ کیا؟ کیا ہم نے ان کے حق میں دعائیں کیں؟ یا پھر ہم بھی اپنی آسائشوں میں مصروف رہے، سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کرکے سمجھ بیٹھے کہ فرض ادا ہوگیا؟یہ امت جسدِ واحد ہے، لیکن آج یہ جسد زخمی ہے، بکھرا ہوا ہے۔ جب ایک حصہ زخمی ہوتا ہے تو پورے جسم کو درد محسوس ہوتا ہے، مگر آج کیا امت کے دوسرے حصے اس درد کو محسوس کر رہے ہیں؟ اگر نہیں، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ کہیں ہم بے حسی کی اتھاہ گہرائیوں میں تو نہیں جا چکے؟

رمضان ہر سال آتا ہے، مگر کچھ علاقوں میں یہ سجدوں اور دعاؤں میں بھیگتا ہے، اور کچھ علاقوں میں یہ خون اور آنسوؤں میں بہتا ہے۔ غزہ کا یہ رمضان تاریخ کا وہ باب ہے جو ہمیں یاد دلاتا رہے گا کہ کچھ لوگ روزہ اس لیے نہیں رکھ سکتے کہ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہیں، اور کچھ لوگ روزہ اس لیے بھی نہیں کھول سکتے کہ ان کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں۔ یہ رمضان ہمارے لیے امتحان ہے.نہ صرف بھوک اور پیاس کا، بلکہ احساس، ہمدردی اور امت کے درد کو سمجھنے کا بھی۔ اگر ہم نے آج اس کا ادراک نہ کیا، تو شاید کل ہماری باری ہو اور کوئی ہماری مدد کو نہ آئے! اللہ ہمیں بیداری عطا کرے، اور مظلوموں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ آمین!

Comments

Avatar photo

عبیداللہ فاروق

عبیدالله فاروق جامعہ فاروقیہ کراچی فارغ التحصیل ہیں۔ جامعہ بیت السلام کراچی میں تدریس سے وابستہ ہیں۔ دینی و سماجی امور پر لکھتے ہیں

Click here to post a comment