اس بات میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ اسرائیل نئی شامی حکومت کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ شام میں دراندازی، فضائی حملے اور دھمکی آمیز بیانات اس کا واضح ثبوت ہیں۔ شامی حکومت نے پچھلے برس دسمبر میں اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ شامی علاقوں پر قابض اسرائیلی فوج کو انخلا کا پابند بنائے۔ مگر اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ اب شامی حکومت اس سے نمٹنے کیلئے کیا کر رہی ہے، اس پر آگے روشنی ڈالیں گے۔ نیوز ایجنسی رائٹرز نے جمعہ کو باخبر ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسرائیل شام کی نئی حکومت کو "خطرناک" سمجھتا ہے اور اس کا خیال ہے کہ دمشق ایک دن اس پر حملہ کر سکتا ہے۔
اسرائیل نے علانیہ طور پر کہا ہے کہ اسے "ہیئة تحریر الشام" گروہ پر اعتماد نہیں ہے، جو اسد حکومت کے خلاف حملے کی قیادت کر رہا تھا اور جو پہلے القاعدہ سے وابستہ تھا، تاہم 2016 میں اس سے علیحدہ ہو گیا تھا۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم، نتن یاہو نے اتوار کو کہا کہ اسرائیل "ہیئة تحریر الشام" یا شام کی نئی حکومت سے وابستہ کسی بھی فوجی گروہ کے جنوب شام میں موجودگی کو برداشت نہیں کرے گا، اور اس نے جنوبی علاقے کو اسلحے سے خالی کرنے کا مطالبہ کیا۔ پھر ہفتہ کو نتن یاہو نے دمشق کے مضافاتی علاقے جرمانا میں کشیدگی کا بہانہ کرکے کہا ہم وہاں کے دروزوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ تاہم دروز مذہب کی سرکردہ شخصیات نے اسرائیلی بیانات کو مسترد کیا اور کہا کہ ہم شام کا ہی حصہ ہیں اور رہیں گے۔ ہمیں اسرائیلی مدد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر اتوار کی شام تک یہاں کے حالات پر قابو پالیا گیا اور شامی فوج نے علاقے کا مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ جس سے وقتی طور پر یہ مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد، اسرائیل نے شام میں فوجی اڈوں اور مقامات پر سیکڑوں فضائی حملے کیے اور اپنی فوج کو شام کے اندر اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک غیر فوجی علاقے میں منتقل کر دیا۔
رواں ہفتے کے شروع میں، اسرائیل نے جنوبی دمشق میں فوجی مقامات کو نشانہ بنایا تھا۔ امریکی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیل اس بات پر شدید فکر مند ہے کہ ترکی شام کی نئی حکومت کا قریبی اتحادی بن کر اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ جس سے ترکی اور اسرائیل کے براہ راست ٹکراؤ کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں۔ اسرائیلی دفاعی مبصرین اس صورت حال کو باریک بینی سے دیکھ رہے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے پچھلے سال کہا تھا کہ اسلامی ممالک کو اسرائیل کے "بڑھتے ہوئے توسیعی خطرے" کے خلاف اتحاد قائم کرنا چاہیے۔ گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر خارجہ، جدعون ساعر نے کہا تھا کہ اسرائیل ترکی کی جانب سے ایران کی حمایت پر تشویش کا شکار ہے، خاص طور پر ایران کے حزب اللہ لبنانی گروہ کو دوبارہ بحال کے لیے کوششوں میں ترکی کے تعاون پر۔ اس نے یہ بھی کہا کہ شام میں موجود اسلامی گروہ اسرائیل کے خلاف ایک نیا جغرافیائی محاذ کھول رہے ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ شام میں استحکام چاہتا ہے تاکہ وہ اپنے ہمسایوں کے لیے کوئی خطرہ نہ بنے۔ ترکی نے بار بار کہا ہے کہ اسرائیل کی جنوبی شام میں کارروائیاں اس کی توسیعی پالیسی کا حصہ ہیں اور یہ ظاہر کرتی ہیں کہ اسرائیل خطے میں امن قائم کرنے کا خواہاں نہیں ہے۔ اس دوران اسرائیلی حکام اپنے امریکی سرپرستوں کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روس کو شام میں اپنے بحری اڈے طرطوس اور فضائی اڈے حمیمیم کو برقرار رکھنا چاہیے تاکہ ترکی کے اثر و رسوخ کو قابو میں رکھا جا سکے۔ وہ امریکا پر روز دے رہے ہیں کہ وہ کردوں کے علاقے سے انخلا نہ کرے۔ اسرائیل کی بھرپور کوشش ہے کہ شام کسی طرح متحد نہ رہے۔ بلکہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو اور وہاں خانہ جنگی کی صورتحال باقی رہے۔
دو امریکی ذرائع نے رائٹرز کو بتایا کہ جب اسرائیلی حکام نے اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقات میں روسی موجودگی کے تسلسل کی بات کی، تو کچھ حاضرین حیران ہو گئے اور انہوں نے یہ نشاندہی کی کہ نیٹو کے رکن ترکی اسرائیل کی سیکورٹی کے لیے بہتر ضامن ثابت ہو سکتا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ اسرائیلی حکام نے اس بات پر "زور" دیا کہ یہ صورتحال درست نہیں ہے۔ دریں اثنا، نئی شامی قیادت روس کے ساتھ مل کر فوجی اڈوں کے مستقبل پر بات چیت کر رہی ہے۔ شامی حکومت عربی اور مغربی ممالک کو اپنے ارادوں کے بارے میں اطمینان دینے کی کوشش کر رہی ہے اور اس نے وعدہ کیا ہے کہ شام تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ شامل کرے گا اور وہ ان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرے گا، جنہوں نے بشار الاسد سے تعلقات ختم کر لیے تھے۔ شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے دسمبر میں غیر ملکی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دمشق نہ تو اسرائیل کے ساتھ اور نہ ہی کسی اور ملک کے ساتھ تصادم چاہتا ہے۔ تاہم ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل امریکا سے بار بار کہہ رہا ہے کہ نئی حکومت ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے اور شامی فوج مستقبل میں اسرائیل پر حملہ کر سکتی ہے۔ اسد نے اسرائیل کے زیر قبضہ گولان کی سرحد کو برسوں تک پرامن رکھا، حالانکہ وہ ایران کا اتحادی تھا، لیکن اس کے زوال کے بعد مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن میں تبدیلی آئی۔
دوسری جانب، ذرائع نے بتایا کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے اپنی مدت کے آخری ہفتوں میں شامی رہنماؤں کے خلاف پابندیاں نرم کرنے پر غور کیا تھا، تاہم اس شرط پر کہ روسی فوجی اڈے بند کر دیئے جائیں۔ سابق امریکی حکام نے رائٹرز کی جانب سے شام کے بارے میں ان کے ردعمل کے لیے کیے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بائیڈن کی ٹیم اس بات پر اتفاق نہیں کر پائی تھی کہ روسی فوجی اڈوں کو بند کرنے کے بدلے شامی رہنماؤں کے خلاف پابندیاں نرم کی جائیں اور یہ معاہدہ 20 جنوری کو صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے طے نہیں ہو سکا تھا۔ ذرائع نے یہ بھی کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس بات کے لیے زیادہ تیار ہو سکتے ہیں کہ روسی فوجی اڈے شام میں برقرار رہیں، کیونکہ ان کے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ اسرائیلی دباؤ جو شام کو کمزور رکھنے کی کوششوں کی صورت میں سامنے آیا ہے، وہ امریکہ کے اتحادی ممالک کے مقابلے میں ایک بالکل مختلف نقطہ نظر کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر سعودی عرب کا جو پچھلے ماہ کہہ چکا ہے کہ وہ واشنگٹن اور یورپ کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے تاکہ شام پر مغربی پابندیاں نرم کی جا سکیں۔ ترکی کی حکمراں جماعت "عدالت و ترقی" کے ذرائع نے بتایا کہ انقرہ میں منگل کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کی میزبانی اس لیے کی گئی تاکہ نئی امریکی پالیسی کے بارے میں غیر یقینی صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکے اور اسرائیل کی طرف سے کسی بھی کارروائی کے ساتھ توازن رکھا جا سکے جو ترکی کے مفادات کو شام میں خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اسرائیل کی ایک دستاویز جس میں اہم نکات شامل تھے، امریکی حکام کے اعلیٰ عہدیداروں میں تقسیم کی گئی۔ تمام ذرائع نے درخواست کی کہ ان کے نام نہ ظاہر کیے جائیں کیونکہ یہ معاملہ حساس نوعیت کا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ، نیشنل سیکورٹی کونسل، اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو کے دفتر، شامی وزارت خارجہ اور ترک وزارت خارجہ نے اس پر کسی تبصرے کا جواب نہیں دیا۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ اسرائیل کی تجویزوں کو کس حد تک قبول کرے گی۔ امریکی انتظامیہ نے شام کے معاملے پر زیادہ بات نہیں کی ہے، جس کی وجہ سے دمشق پر عائد پابندیوں اور شمال مشرقی شام میں موجود امریکی فوجوں کی پوزیشن کے حوالے سے عدم یقین کی حالت پیدا ہو گئی ہے۔
ترکی کی عالمی کوششیں:
ترکی اور برطانیہ کے حکام اسرائیلی دھمکیوں کے تناظر میں شام کی تازہ ترین صورتحال پر بات چیت کر رہے ہیں، جن میں اسرائیلی دھمکیاں اور شام کے لیے بین الاقوامی حمایت شامل ہے، یہ اجلاس آج پیر کو ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں ہوگا۔ ترک ذرائع نے اناطولیہ نیوز ایجنسی کو بتایا کہ مشاورتی بات چیت کی صدارت ترک وزیر خارجہ کے نائب نوح یلماظ اور برطانوی وزارت خارجہ کے وزیر برائے مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان ہیملش فولک نر کریں گے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ مشاورتی اجلاس میں شام سمیت علاقائی مسائل پر خیالات کا تبادلہ کیا جائے گا۔ یلماظ ترکی کے نقطہ نظر اور شام کے حوالے سے ترکی کی سلامتی، استحکام اور اقتصادی صورتحال کے بارے میں برطانوی وفد کو آگاہ کریں گے۔ انہی ذرائع کے مطابق، مذاکرات میں یہ بھی توجہ مرکوز کی جائے گی کہ کس طرح بین الاقوامی کمیونٹی کے تعاون سے شام میں قومی مفاہمت کے لیے انتظامیہ کی اقدامات کی حمایت کی جانی چاہیے اور شامی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لیے شام پر عائد پابندیوں کو مکمل اور غیر مشروط طور پر ختم کرنے کی ضرورت پر بات کی جائے گی۔ مذاکرات کے دوران اس بات پر بھی زور دیا جائے گا کہ شام کے مستقبل میں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے اور اسرائیلی دھمکیوں اور خلاف ورزیوں کے خاتمے کی ضرورت پر توجہ دی جائے گی جو شام کی خودمختاری کو چیلنج کر رہی ہیں۔
دوسری جانب شامی حکومت اس وقت اسرائیل سے براہ راست ٹکرانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ 13 سالہ خانہ جنگی سے نکلنے والے ملک سے یہ توقع بھی کار عبث ہے۔ اس لیے شامی حکام زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے ساتھ اندرونی طور پر دروز سمیت تمام اکائیوں کو اپنے ساتھ متحد کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس میں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی حکومت کے بیانات کی السویداء اور شام کے تمام علاقوں میں عوامی ردعمل پر شدید مذمت کی گئی۔ جرمانا کے مشائخ اور اہم شخصیات نے کل ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے شام کی سرزمین کی مکمل یکجہتی پر زور دیتے ہوئے اسرائیلی بیانات کی مذمت کی۔ جہاں تک اسرائیل کی جانب سے "شام میں دروز کی حفاظت" کے حوالے سے بیانات ہیں، "رجال الكرامة" کے رہنما شیخ غیث البلعوس نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی تحریک کسی بھی بیرونی سرپرستی کو مسترد کرتی ہے اور انہوں نے اپنے قومی مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کسی بھی تقسیم کی کوششوں کی مخالفت کی۔ انہوں نے اس بات پر دوبارہ زور دیا کہ ان کی تحریک کا مؤقف اپنے بانی شیخ وحید البلعوس کے اصولوں پر مبنی ہے، جو یہ ہیں کہ شام ان کا واحد وطن ہے اور وہ اس کی وحدت اور آزادی کے تحفظ کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
تبصرہ لکھیے