تین دن پہلے بشیراں مجھے ملنے آئی. میں اپنے ایک وٹس ایپ گروپ میں گہری ’’علمی‘‘ بحث میں مصروف تھی۔ اسے بیٹھنے کا کہا. رسمی سلام کے بعد میں واپس اپنی ٹائپنگ میں مصروف ہوگئی. اس کی طرف نظر پڑی تو مجھے خالی نگاہوں سے دیکھ رہی تھی. جوانی میں بوڑھی ہو جانے والی بشیراں، چھوٹے چھوٹے پانچ بچوں کی ماں، کو اس کے شوہر نے دوسری عورت کے چکر میں گھرسے نکال دیا تھا. اس کے لیے پانی اور آم منگوایا اور پھر سے موبائل پر مصروف ہو گئی. اس پر پھر نظر پڑی تو وہ اب بھی مجھے ان خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی. لگا کہ اس نے آم کھایا ہی نہیں. تین گھروں کی صفائی کرنے والی مجھے آج زیادہ ہی بیمار دکھائی دی.
شام کا وقت تھا. خیال آیا کہ آج اس کے پاس پیسے بالکل نہیں ہوں گے اسی وجہ سے اب تک یوں ہی مجھ سے آس لگا کہ بیٹھی ہے. پہلے تو میں نے اسے ’ایک‘ آم اپنے لفافے میں رکھنے پر ڈانٹا کہ تم نے آم خود کیوں نہیں کھایا. کہنے لگی باجی بچوں کے لیے رکھ لیا. غصے میں اس کے لیے اور آم منگوایا اور اپنے سامنے کھلایا، اور اس دوران وہ اپنی صحت کا خیال نہ رکھنے پر میری ڈانٹ سے مستفید ہوتی رہی.
بشیراں میرا کام نہیں کرتی. جب ضرورت پڑے، میرے لیے ملازمہ کا انتظام کر دیتی ہے. آم کھانے کے بعد اس نے مجھے اپنی رات کی داستان سنائی، سن کر میری روح تک کانپ گئی.
ایک دن پہلے کی بات ہے، اس کے محلے ميں ساری رات بجلی نہ آئی. اگست کی سخت ترین حبس اور گرمی کی رات تھی. یہ ایک ہی کمرے میں رہتی ہے. اور رات کو یہ لوگ گلی میں سوتے ہیں. مگر بچے اغوا ہونے کے واقعات کی وجہ سے تمام لوگ اب گھروں میں سونے لگے ہیں.
کہنے لگی ’’باجی اک ہی چھوٹا جیا کمرہ اے تے بجلی وی کوئی نہ ، تے کھڑکی وی کوئی نہ. میں پنجاں بچیاں نوں لے کہ بند کمرے وچ ساری رات رئی. گرمی تے حبس نال سانوں ساہ وی نہ آئے. بچے رون تے میں کلی پکھا چلدی ڈردی درواجا وی نہ کھولاں. میں تے میرے بچے ساہ لین توں حف گئے. ساری رات پسینے وچ پِجّے روندیاں گزری. مولوی نے اذان دتی تے شکر کیتا تے درواجا کھولیا. بچے پانی ول دوڑے تے ٹوٹیاں وچ پانی وی کوئی نہ کہ دو کونٹ پیویے تے اُتے پائیے.‘‘
ایک آسمان تھا، قدرتی ہوا تھی، غریب سے رات کو وہ بھی چھن جائے، کمرہ ٹارچر سیل بن جائے، خطرناک قیدیوں کی کال کوٹھری میں بھی شاید اوپر ایک روشن دان ہوتا ہے.
مگر ہمیں کیا! ہمیں تبدیلی کی جلدی ہے نہ ہمارے حکمرانوں کو. ہمارے لیڈروں کو مسئلہ ہے نہ ہمارے علمائے اسلام کو. سب کے اپنے اپنے ايجنڈے ہیں.
اسی مجبور عورت سے سیاستدانوں کو ووٹ چاہیے. لیڈروں کو جلسوں میں حاضری چاہیے. ہم جیسے اے سی والوں کو سستی کام والی چاہیے. اسلام والوں کو شریعت کی تبلیغ اور فحاشی عریانی کے خلاف جہاد کے لیے سننے والے کان چاہییں. انسانی حقوق والوں کو یہ عورت اس وقت چاہیے جب اس کے ساتھ کوئی بھیانک واقعہ ہو. کسی کو اس کی راتوں کی کہانی میں کوئی دلچسپی نہیں۔
’’یہ لوگ بڑے پّکے ہوتے ہیں. یہ گزارا کر لیتے ہیں۔‘‘
تبصرہ لکھیے