ہوم << زیلنسکی میں دم ہے - معوذ اسد صدیقی

زیلنسکی میں دم ہے - معوذ اسد صدیقی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی کی وائٹ ہاؤس میں تکرار کے بعد تو ماننا پڑے گا کہ زیلنسکی میں ہمت اور حوصلہ، یعنی لونڈے میں دم ہے۔ چاہے آپ اسے جتنا بھی برا بھلا کہیں یا یہ دعویٰ کریں کہ اسے ذلیل کیا گیا، حقیقت ویسی نہیں جیسی بظاہر نظر آتی ہے۔ جب بھی فریقین کے درمیان کسی بھی قسم کا تصادم ہوتا ہے، چاہے وہ ہاتھا پائی ہو یا زبانی جنگ، اصل نقصان ہمیشہ بڑی طاقت کا ہوتا ہے، چاہے وقتی طور پر کمزور فریق کو مشکلات ہی کیوں نہ جھیلنی پڑیں۔ کمزرو فریق کا کھڑا رہنا ہی اس کی جیت ہوتی ہے۔

یوں تو ٹرمپ نے یہ ٹی وی ڈارمہ جان بوجھ کر کیا ہے۔ اسے امریکہ کے امیج سے زیادہ اپنے ووٹرز کے سامنے اپنے امیج کی فکر ہے۔ مگر اس ڈارمہ کا اصل نقصان امریکہ کے امیج کو پہنچا ہے۔ امریکہ کو تمام تر بین الاقوامی بد معاشیوں کے باوجود دنیا میں بڑی طاقت اور بڑے بھائی جیسی اہمیت حاصل تھی، جسے زک پہنچی ہے۔

یہ سچ ہے کہ زیلنسکی کو روس کے مقابلے میں زیادہ طاقت حاصل نہیں، مگر اس نے اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایک سپر پاور کے خلاف ایک سال تک ڈٹ کر کھڑے رہنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یاد رکھیں، جدید اسلحہ جتنا بھی مل جائے، اگر زمینی فوج میں لڑنے کی صلاحیت اور حوصلہ نہ ہو تو دنیا کی کوئی طاقت بھی آپ کے لیے جنگ نہیں لڑ سکتی۔ چاہے ہماری ہمدردیاں روس کے ساتھ ہوں، پھر بھی یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے کہ یوکرین نے بھرپور مزاحمت کی ہے۔ روس، جس نے یوکرین کو محض ایک جھٹکے میں زیر کرنے کی امید رکھی تھی، آج بھی اس جنگ میں الجھا ہوا ہے۔

دوسری بات، زیلنسکی نے اپنی قیادت اور سیاسی بصیرت کا بھی ثبوت دیا ہے۔ خاص طور پر جس انداز میں وہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوا، وہ قابلِ غور ہے۔ اس نے اپنے معمولی لباس کے ذریعے واضح کر دیا کہ وہ کسی رسمی یا نمائشی پروٹوکول کو خاطر میں نہیں لا رہا۔ اس کے بعد، جب وہ دنیا کے دو طاقتور ترین افراد، یعنی امریکی صدر اور نائب صدر کے سامنے بیٹھا تھا، تو اس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بےباک انداز میں بات کی۔

ذرا تصور کریں، اگر آج کا کوئی مسلم حکمران ڈونلڈ ٹرمپ جیسے طاقتور شخص کے سامنے بیٹھا ہوتا، تو ممکن ہے کہ وہ دباؤ میں آ کر پسینے پسینے ہو جاتا۔ نہ صرف قیمض گیلی ہوتی بلکہ پتلون کا بھی وہی حال ہوتا (سوائے افغانستان کے ملاوں اور ایک عام فلسطینی کے)، مگر زیلنسکی نے اس ملاقات کے بعد غصے اور خود اعتمادی کے ساتھ باہر آ کر اپنا مؤقف برقرار رکھا۔ (معافی نہیں مانگوں گا)

ضروری نہیں کہ جس شخصیت کو آپ پسند نہ کرتے ہوں، اس کی بہادری کا بھی انکار کر دیا جائے۔

Comments

Avatar photo

معوذ اسد صدیقی

معوذ اسد صدیقی 25 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ ہم نیوز امریکہ کے بیوروچیف ہیں۔ ان کا شمار امریکہ میں پاکستانی صحافت کے چند معروف صحافیوں میں ہوتا ہے۔ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کرنے کے بعد مختلف اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وابستہ رہے ہیں۔ ان کا تجزیہ ہمیشہ غیرجانبداری کا رنگ لیے ہوتا ہے۔ امریکہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ان کی پہچان خدمتِ خلق ہے۔

Click here to post a comment